ملک میں نئی سیاسی جماعت کیلئے راہ ہموار!!! کونسی نامور شخصیات اس میں شامل ہونگی؟ حیران کن تفصیلات سامنے آگئیں
لاہور: (ویب ڈیسک) کنور دلشاد اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ” وزیر اعظم عمران خان نے ملک کی اندرونی صورتحال‘ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت اہم کیسز‘ صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اور صوبہ خیبر پختونخوا کے باقی اضلاع میں 27 مارچ کو ہونے والے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات‘ بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کے حوالے سے اعلامیے۔
ملک میں بے تحاشا مہنگائی اوربے روزگاری کو مدِنظر رکھتے ہوئے اگلے تین ماہ کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے فوجی قیادت کے ساتھ مثالی تعلقات کا جوتاثر پیش کیا ہے اس میں انہوں نے تاریخ میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل محمد یحییٰ خان نے 20 مارچ 1969ء کو صدر ایوب خان کی حمایت میں بیان دیا تھا کہ وہی 23مارچ 69ء کو مشترکہ فوجی پریڈ کی سلامی لیں گے لیکن پھر 22 مارچ کی رات کو میجر جنرل پیرزادہ کے ذریعے صدر ایوب خان کو پیغام پہنچا دیا گیا کہ 23 مارچ کو آغا محمد یحییٰ خان مشترکہ پیریڈ کی سلامی لیں گے۔ 24 مارچ کو صدر ایوب خان اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ اسی طرح دو جولائی 1977ء تک جنرل ضیا الحق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے رہے اور پانچ جولائی کی صبح ان سے اقتدار حاصل کر لیا۔ دراصل عساکرِ پاکستان آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت ریاست کی وفادار ہیں اور جب ریاست کو غیرمستحکم حکومت کا سامنا کرنا پڑ جائے تو آئین کا یہ آرٹیکل ریاست کو بچاتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے مستقبل کے بارے میں سنگین نوعیت کے سوالات اُٹھا دیے ہیں اور الیکشن کمیشن کی معاونت کرتے ہوئے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پوشیدہ حقائق سے پردے اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ 53اکاؤنٹس چھپائے گئے جبکہ صرف 12ظاہر کیے گئے ہیں۔ اس طرح وصول شدہ رقم اور ظاہر کردہ فنڈز میں 32 کروڑ کا فرق ہے اور نیوزی لینڈ‘ کینیڈا اور امریکہ کے بینکوں تک الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کو رسائی نہیں دی گئی۔
یہ باور کیا جاتا ہے کہ غیرملکی کمپنیوں اور غیرملکی شہریوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر ان اکاؤنٹس میں آئے ۔ فارن فنڈنگ کیس کی سماعت جوں جوں آگے بڑھے گی مزید انکشافات سامنے آتے رہیں گے۔ جتنا یہ کیس طول پکڑے گاتحریک انصاف کو سیاسی طور پر ناقابلِ یقین حد تک نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ غیرملکی فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204 بہت سخت ہے اور اسی ایکٹ کی دفعہ 210 پارٹی چیئرمین کے لیے سخت امتحان ہے کیونکہ ان کے دستخط سے جمع کرائے گئے پارٹی کے اثاثے اور ذرائع انکم کے اقرارنامے درست ثابت نہ پائے گئے تو ان کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے وضاحت طلب کرنے کی قانونی پوزیشن میں ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ کے رولز 160 میں یہ اختیارات کمیشن کے پاس ہیں کہ وہ پارٹی کے فنڈز اور اثاثوں کے بارے مکمل
معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن سماعت کے دوران مزید تفتیش کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت فرانزک آڈٹ کرانے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔میری رائے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان حقائق چھپانے کے معاملے اور ملکی بینکوں تک رسائی نہ دینے پر سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر سے بھی وضاحت طلب کر سکتا ہے یا اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان کو طلب کر سکتا ہے۔ اب اگر تحریک انصاف کے قانونی ماہرین ماضی کی روایت کے مطابق سماعت کو آگے لے جاتے ہیں تو پھر تحریک انصاف کو مارچ میں بلدیاتی انتخابات میں مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اور ممکن ہے سماعت کے دوران مزید حیرت انگیز انکشافات سامنے آنے پر ووٹرز پر منفی اثرات پڑیں‘ لہٰذا تحریک انصاف کو چاہیے کہ سماعت کے دوران مزید رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے فارن فنڈنگ کیس کا مقدمہ فروری تک منطقی انجام تک پہنچنے دے کیونکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ بادی النظر میں مجھے یوں نظر آ رہا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن آف پاکستان مدعی اور مدعا علیہ سے مزید وضاحتیں طلب کر کے فیصلہ سنا دے کیونکہ فارن فنڈنگ کیس نومبر 2014ء سے زیر سماعت ہے اور سکروٹنی کمیٹی نے بھی مارچ 2018ء سے تادمِ تحریر کافی وقت لے لیا ہے‘ اب مزید تحقیق کرنا یا کسی ادارے سے مزید تفتیش کرانا‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف نے بھی بلدیاتی انتخابات میں اپنی پارٹی کی بقا کے لیے حکمت عملی طے کرنی ہے کیونکہ اگر تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں تحریک انصاف کے انتخابی امیدوار دوراہے پر کھڑے نظر آئیں گے کیونکہ اس صورت میں پی ٹی آئی ایک ایسی جماعت بن سکتی ہے جس کا انتخابی نشان الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کی زد میں ہو۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی کے گوشوارے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 210 کے مطابق جمع نہیں کرائے اور اب اگر الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے تمام گوشوارے 2008ء سے 2013ء تک مسترد کرتا ہے تو پھر پارٹی کے چیئرمین کے خلاف حقائق چھپانے کی شق کے تحت کارروائی شروع ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے کہ وقت اور طریقہ کار غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے، تحریک انصاف کے پارلیمانی ارکان جو گوشہ نشیں ہیں خاموشی سے ان حالات کا جائزہ لے رہے ہیں‘ان کو احساس ہے کہ پارٹی کو غیر سنجیدہ ارکان نے یرغمال بنا رکھا ہے اور پارٹی کی بقا کا سوال پیدا ہو رہا ہے لہٰذا پارٹیکے ہی باقی ارکانِ اسمبلی گہری نظر سے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں
اور میری رائے میں پارٹی کے اندرونی حالات نومبر 2002ء کی طرف جا رہے ہیں جب راتوں رات پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے نام سے ایک جزیرہ اُبھر آیا تھا جس نے بے نظیر بھٹو کی ساری حکمت عملی پر پانی پھیر دیا تھا ۔ وزیراعظم عمران خان جس تیزی سے سیاسی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں اس کے پیش نظر پارلیمانی طوفان کسی بھی وقت سونامی کی صورت میں پارلیمنٹ پارٹی سے ٹکرا سکتا ہے۔ ایک سنجیدہ اور طاقتور شخصیت جن کا شجرہ نسب ملک کے تمام بڑے سیاسی گھرانوں تک پھیلا ہوا ہے‘ ملک میں ایک مضبوط تھرڈ پارٹی کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ ان کی مجوزہ تھرڈ پارٹی میں ملک کیدیگر پارلیمانی سیاسی جماعتوں میں سے اہم شخصیات ان کے ساتھ کھڑی ہوں گی
جبکہ اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ بیورو کریٹس‘ عدلیہ اورافواجِ پاکستان کا پس منظر رکھنے والی شخصیات کے علاوہ نامور میڈیا پرسنز اور معاشی ماہرین پر مشتمل ایک اہم سیاسی جماعت کے معرضِ وجود میں آنے کے لیے بھی حالات سازگار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس اگر حالات تیزی سے بگڑ گئے تو پھر ذرا سی کوتاہی سے جمہوریت کی بساط الٹنے میں دیر نہیں لگے گی اور آئندہ انتخابات نئے پولیٹیکل سسٹم کے تحت ہی ہوں گے اور چین‘ ملائیشیا‘ فرانس‘ سری لنکا‘ انڈونیشیا اور امریکہ کے انتخابی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں سسٹم لاگو ہوگا اور ملک کو موروثی سیاست سے نجات دلا کر معاشی طور پر مضبوط پاکستان بنانے کے سفر کا آغاز کیا جائے گا۔