پاکستان اور پاکستانی کسی خوش فہمی اور بھول میں نہ رہیں کیونکہ ۔۔۔!!!سلیم صافی نے ساری کہانی کھول کر رکھ دی
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب جبکہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کو ہے اور اس انخلا سے قبل افغان تالبان، افغانستان کے حکمران بن چکے ہیں تو پاکستان میں بالعموم اور قبائلی اضلاع میں بالخصوص پاکستانی عسکریت پسندوں کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔
چنانچہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسند کیا کریں گے اور ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ افغان تالبان نے پاکستان سمیت تمام پڑوسی ممالک کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے
جبکہ دوسری طرف پاکستان کے مطالبے پر افغان تالبان کے امیرالمومنین نے ٹی ٹی پی کے ایشو سے متعلق ایک کمیشن بھی تشکیل دیا ہے تو یہاں لوگوں کی اکثریت یہ توقع لگائے بیٹھی ہے
کہ افغان تالبان، پاکستانی تالبان کو پکڑ پکڑ کر پاکستان کے حوالے کردیں گے حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔ اس لئے میری گزارش ہے کہ اس زعم میں مبتلا ہونے کی بجائے ٹی ٹی پی اور حتیٰ کہ آئسز سے وابستہ تمام پاکستانی مذہبی عسکریت پسندوں کے لئے ،ہتھیار پھینکنے اور پرامن زندگی
گزارنے کے وعدے کے عوض عام معافی کا اعلان کیا جائے ، تاہم یہ کام چوری چھپے یا پھر احسان ﷲ احسان کے معاملے کی طرح نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ کام کھلے عام شفاف طریقے سے ہونا چاہئے ۔ اعلان سے قبل ریاست پاکستان تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے
اور اس کے لئے ضروری قانون سازی بھی کی جائے۔ پھر افغان تالبان کی مدد لے کر اور ان کو ثالث بنا کر ہر طرح کے پاکستانی عسکریت پسندوں کو ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کیا جائے ۔ اگر یہ کام شفاف طریقے سے اور سب کو اعتماد میں لے کر کیا گیا تو نہ صرف وہ لوگ پرامن زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہیں
بلکہ پاکستان میں بھی امن قائم ہوسکتا ہے لیکن اگر ماضی کی غلطیوں کو دہرایا گیا اور ایک ہمہ پہلو اور جامع حکمت عملی کے ساتھ مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو حاکم بدہن 2014جیسے حالات دوبارہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری یہ تجویز بہت سارے سیاسی اور صحافتی لبرلز کو بری لگے گی
اور مجھے طرح طرح کے الزامات سے بھی نوازا جائے گا، یہ لوگ کہیں گے کہ وہ ہمارے فوجیوں اور سیاسی رہنمائوں کے مجرم ہیں اور انہیں معاف نہیں کیا جاسکتا لیکن میری ان سے گزارش ہوگی کہ جب ہم افغانستان میں معاف کرو اور مصالحت سے کام لو کے داعی ہیں تو پھر اپنے ملک میں ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟