کوئی بھوکا مر گیا، تو خُدا کو کیا جواب دوں گا ۔۔ ایسا ریسٹورنٹ جہاں فری میں کھانا کھلایا جاتا ہے
ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کی خواہش امیر و غریب سب ہی کرتے ہیں۔ امیر ہفتے میں ایک مرتبہ یا اس سے زیادہ اپنی اس خواہش کو پورا کرلیتا ہے مگر غریب اپنی چادر کے لحاظ سے پاؤں پھیلاتا ہے۔ غریب 10 دفعہ سوچتا ہے ریسٹؤرنٹ میں کھانا کھانے سے پہلے کہ اس کی جیب میں اتنے پیسے ہیں بھی یا نہیں۔
لیکن ایک ایسا ریسٹورنٹ بھی ہے جہاں امیر اور غریب دونوں ہی کھانا کھاتے ہیں۔ امیر کھانے کے ساتھ ٹیکس بھی ادا کرتا ہے جبکہ غریب کو مفت میں کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اس ریسٹورنٹ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں امیروں اور غریبوں کے لئے الگ یا
مخصوص جگہیں نہیں ہیں بلکہ سب لوگوں کے لئے یکساں ٹیبل اور یکساں ہال ہے جس کو جہاں بیٹھ کر کھانا ہے وہ کھا سکتا ہے۔یہاں اگر کھانا بچ جائے تو امیروں سے سوال کیا جاتا ہے کہ ضائع کیوں کیا جبکہ غریبوں کو وہی کھانا پیک کرکے دے دیا جاتا ہے جو وہ بچاتے ہیں۔
یہ ریسٹورنٹ کہاں ہے؟
فاؤل ڈبلیو حُمسس نامی یہ ریسٹورنٹ دبئی میں البرشاء مشہور مال کے اطراف میں پایا جاتا ہے جو ایک مصری شخص کا ہے۔ جس کا نام فآدیٰ ایاد ہے۔ ریسٹورنٹ کے مالک کا کہنا ہے کہ:
” میں مصر میں رہتا ہوں، وہیں پلا بڑا اور تمام تر تعلیم حاصل کی پھر جب کاروبار کی غرض سے دبئی کی سرزمین پر قدم رکھا تو مجھے احساس ہوا کہ بھوکا رہنا کتنی بڑی اذیت ہے، میں ب اس سرزمین پر بھوکا رہا ہوں۔ جب میں یہاں کام کرتا تھا
تو کئی دنوں تک کھانا پیٹ میں نہیں جاتا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ کیسے حکمران ہیں جنہیں عرب روایت کا اصول بھی نہیں معلوم ۔۔جب خُدا نے مجھے اپنی ذات سےبیشمار رزق عطاء کیا اس وقت میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں ایک ایسا ریسٹورنٹ بناؤں گا
جہاں لوگوں کو مفت میں کھانا کھلاؤں گا ۔ جو پیسے نہیں دے سکے گا اس سے ایک روپیہ وصول نہیں کروں گا لیکن صاحبِ استطاعت کو اس سے استشنیٰ حاصل ہوگا۔”
فآدیٰ ایاد مزید کہتے ہیں: ” میں نے اس ریسٹورنٹ میں دنیا کا ہر وہ شیف رکھا جو ملک بدر ہوکر کمانے کی غرض سے آیا اور اب میں انہیں ان کی ضروریات کے مطابق تنخواہ بھی دیتا ہوں۔
مجھے لگتا ہے اگرکوئی اس سرزمین پر یہاں بھوکا سویا تو مجھے خُدا کے سامنے شرمندگی ہوگی کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے ہیں کہ میں لوگوں کو کھلا سکوں تو میں کیوں کسی کی مدد نہ کروں
جبکہ مجھے پیسے دینے والا بھی وہ خُدا ہے جس کے بندے میری آنکھوں کے سامنے بھوک سے بلبلا رہے ہیں لیکن سفید پوش ہیں اس لیے مانگ نہیں رہے۔”