دادا نے جھاڑو لگا لگا کر جو خواب دیکھا پوتی نے پورا کر دیا، کامیابی کے بعد پوتی کا دادا کے نام پیغام نے سب کو جذباتی کر دیا
ذات پات کے نظام کے حوالے سے اگرچہ سیکولر بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ ختم ہو چکا ہے مگر یہاں کے رہنے والوں کی باتوں سے ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے۔ آج بھی مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے الگ گلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو خود کو ارفع مخلوق سمجھتے ہیں اور ان کا یہ ماننا ہے کہ کسی نچلی ذات کا ان کو چھونا یا ان کے ساتھ بیٹھنا ان کے
دھرم کو بھرشٹ کر سکتا ہے-حالیہ دنوں میں ان کے اس دعویٰ کی نفی ان کے ملک کی ایک لڑکی جوہی کورے نے کی جس نے آکسفورڈ یونی ورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد اپنی لنک ڈن پروفائل سے ایک پیغام شئير کیا–جوہی کا یہ پیغام اگرچہ اس کے دادا کے لیے تھا جو کہ اس کی اس کامیابی کا سب سے اہم سنگ میل تھے، جن کا انتقال جوہی کے مطابق ایک سال ہی قبل ہوا تھا مگر اپنے اس پیغام سے اس نے پڑھنے والوں کو جذباتی کر دیا اور ثابت کر دیا
کہ اگر کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں تو بڑا خواب دیکھیں کیوں کہ ایک نہ ایک دن یہ خواب پورے ہو کر آپ کے لیے باعث فخر ہو سکتے ہیں- دادا کے نام جذباتی پیغام اپنے اس پیغام میں جوہی کا کہنا تھا کہ جوہی کے دادا کا تعلق مہارشٹرا کے ایک گاؤں سے تھا وہ ایک نچلی ذات کے ہندو تھے اور اپنے گھر کے سب سے بڑے بیٹے تھے مگر نچلی ذات سے تعلق رکھنے کے سبب ان کو گاؤں کے اعلیٰ ذات کے لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ تھی-
دوسری جانب غربت کے سبب ان کے اوپر گھر کی ذمہ داریاں بھی تھیں اور ان کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا تعلیم حاصل کرنے کے بجائے گھر کے اخراجات کی تکمیل کے لیے ان کے ہاتھ بٹائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ اسکول کے اونچی ذات کے لڑکے ان کے بیٹے کو اس کی ذات کے سبب مذاق کا نشانہ بنائيں گے اس وجہ سے وہ بیٹے کو
اسکول جانے سے روکتے تھے-مگر اس کے برخلاف جوہی کے دادا نے اپنے والدین سے کہا کہ صبح تین بجے جب سب سورہے ہوں گے اس وقت کھیتوں پر جا کر کام کر لیں گے اس کے بعد دوپہر میں اسکول چلے جائيں گے تاکہ ان کی تعلیم کے حصول کا شوق بھی پورا ہو جائے- جوہی کا یہ بھی کہنا تھا
کہ اس کے دادا ڈيڑھ گھنٹوں کا اسکول کا فاصلہ پیدل روزانہ ٹوٹے ہوئے چپلوں کے ساتھ طے کرتے تھے اور جب اسکول پہنچتے تھے تو ان کو وہاں سب کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت بھی نہ ہوتی تھی اور وہ کلاس سے باہر ڈيوڑھی میں بیٹھ کر کلاس لیا کرتے تھے-
ہوم ورک کرنے کے لیے کتابیں جوہی نے اس وقت کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی بتایا کہ ان کے دادا کے پاس کتابیں بھی نہ ہوتی تھیں جن کی مدد سے وہ اپنا ہوم ورک کر سکیں تو وہ کلاس کے دوسرے بچوں سے ان کی کتابیں مستعار لے کر سڑک پر موجود لیمپ پوسٹ کی روشنی میں بیٹھ کر ہوم ورک کرتے اور اگلے دن دوبارہ صبح تین بجے سے ان کے دن کا آغاز ہو جاتا- زندگی کی بڑی کامیابی
جس طرح محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی اسی طرح جوہی کے دادا جو اس وقت ایک لڑکے تھے ان کو بھی ان کی اس محنت کا صلہ ایک بڑے انعام کی صورت میں ملا جو کہ ان کا اچھا ریزلٹ تھا۔ جب کلاس سے باہر بیٹھ کر پڑھنے پر اور ادھار کتابیں لے کر ہوم ورک کرنے پر جوہی کے دادا نے پورے اسکول میں ٹاپ کیا تو ان کے اس نتیجے کی بنیاد پر اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے ان کو نہ صرف مفت کتابیں مہیا کیں
بلکہ ان کے تعلیمی اخراجات بھی اٹھانے کی ہامی بھر لی جو ان کے لیے ایک بڑی کامیابی ثابت ہوئی۔ خوابوں کی تکمیل کا بڑا سفر جوہی کے دادا نے اسکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بمبئی کی راہ لی اور وہاں جاکر سب سے پہلے اپنی انگریزی کی کمزوری کو دور کیا اور اس کے بعد قانون کے شعبے میں گریجوئشن مکمل کی مگر اس دوران وہ مختلف بلڈنگ میں بطور جمعدار کام کرتے رہے-دن بھر وہ جھاڑو لگاتے اور رات بھر پڑھ کر قانون کی تعلیم مکمل کرتے یہاں تک کہ 60 سال کی عمر میں وہ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے
جھاڑو لگانے سے آکسفورڈ تک کا سفر اس حوالے سے جوہی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اگر جوہی کو آکسفورڈ سے ماسٹرز کی ڈگری لیتے دیکھتے تو یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا خوشی کا دن ہوتا۔ صرف دو نسلوں میں کلاس روم کے باہر بیٹھ کر پڑھنے سے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری تک کے اس سفر میں ان کے خاندان کی سخت ترین جدوجہد شامل ہے جس کا سہرا اس کے دادا جی کے سر ہے-
مگر ایک سال قبل موت کے سبب ان کو یہ موقع دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا مگر اپنی اس پوسٹ کے ذریعے وہ ان کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے- سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل جوہی کی یہ جذباتی پوسٹ نہ صرف وائرل ہو گئی بلکہ اس نے پڑھنے والوں کو بھی جذباتی کر دیا اور لوگ بے ساختہ اس کے دادا جی کی محنت کو سراہنے پر مجبور ہو گۓ اور اس سے ان کو یہ بھی سبق ملا کر اگر انسان چاہے تو بہت کچھ کر سکتا ہے-