ہیرو کو دیکھتے ہی اچھی بھلی ہیروئن کی سانس چڑھ جاتی تھی… پرانی پاکستانی فلموں کی حیرت انگیز باتیں جن کو ہم شوق سے دیکھتے تھے
پاکستانی فلمیں جب ماضی میں بنائی تھیں تو اگرچہ ہر فلم کا نام مختلف ہوتا تھا لیکن ہر فلم کی کہانی کچھ ہی کرداروں کے گرد گھومتی تھی ۔ ایک بھاری بھرکم ہیروئين ہوتی تھی تو دوسری جانب ایک چاکلیٹی سا ہیرو یا پھر گاؤں کے ماحول میں بننے والی فلم میں ایک نقلی بڑی بڑی مونچھوں والا بڑی عمر کا ہیرو ہوتا تھا -ایک بوڑھی ماں اور ایک ہولناک ولن ضرور ہوتا تھا جس کو اگر رات کے وقت اس کے گھر والے بھی دیکھتے تو خوف کے مارے ان کا تراہ ہی نکل جاتا تھا- آج ہم آپ کا ہاتھ تھام کر ماضی کی انہی بھول بھلیوں میں لے جائيں گے جہاں پر پاکستانی فلموں میں پائے جانے والے کچھ لازمی سین ہوں گے جن کو آپ سب نے بھی لازمی دیکھا ہوگا-
1: ای میل یا ویڈيو کال سے بھی جدید خط
ماضی میں فلم کی کہانی میں ایک خط کی بہت اہمیت ہوتی تھی جو کبھی مجبوب اپنی مجبوبہ کو لکھتا یا کبھی بیٹا اپنی ماں کو لکھتا، انکشافات سے بھرپور اس خط کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ اس میں خط لکھنے والے کی شکل بھی صاف نظر آرہی ہوتی تھی اور وہ تصویر اس خط میں آکر پورا خط خود ہی پڑھ کر سنا دیتی تھی-
2: محبت کا اظہار بکری کے بچے کے ساتھ
ہیروئين سے جب بھی ہیرو محبت کا اظہار کرتا اسی وقت ایک بکری کا بچہ کہیں سے میں میں کرتے آجاتا تھا اور ہیروئين بے ساختہ اس بکری کے بچے کو اپنی آغوش میں لے کر چومنا شروع کر دیتی تھی-
3: درخت نہیں ہیروئين ہے بھائی
ہیرو صاحب جب زیادہ ہی مست ہو جاتے محبت میں تو ان کو ہیروئين سے بغلگیر ہونے کی اجازت تو ہوتی نہ تھی تو وہ بے چارہ کسی نہ کسی درخت سے لپٹ جاتا تھا اور تصور کی نگاہ میں اسی کو اپنی ہیروئين سمجھ بیٹھتا تھا-
4: محبت سانس کی بیماری دے جاتی تھی
عشق تو جیون بھر کا روگ ہوتا ہے اور اس کو ماضی کی فلموں میں بہترین انداز میں دکھایا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی ہیروئين محبت میں مبتلا ہوتی اور ہیرو کو دیکھتی اس کی سانسیں تیز ہو جاتی تھیں اور ہر ہر بات کے ساتھ وہ لمبی لمبی سانسیں لینا شروع ہو جاتی جیسے اس کو دمہ کا دورہ پڑ گیا ہے-
5: قابل ڈاکٹر جو آج کے دور میں ندارد
ماضی کی فلموں کے ڈاکٹر اتنے قابل ہوتے تھے کہ ایک ڈبہ اٹھا کر حویلی میں مریض کے معائنے کے لیے آتے اور صرف نبض دیکھ کر بغیر کسی ٹیسٹ کے بتا دیتے کہ مریض کس خطرناک بیماری میں مبتلا ہے اور کتنے دنوں کے بعد وہ مر جائے گا ایسے ڈاکٹر آج کل کے دور میں فلموں کے ساتھ ہی ماضی کا حصہ بن گئے ہیں-
6: گانے فلم کا سب سے اہم حصہ
فلم کی کہانی سے زيادہ اہمیت اس کے گانوں کی ہوتی تھی جو کہ فلم کے بننے سے پہلے ہی منتخب ہوتے تھے اور ضرورت کے مطابق فلم میں ڈالے جاتے تھے اور ان گانوں کا اتنا احترام ہوتا تھا کہ جب ہیروئين ان گانوں پر ڈانس کرتی تو اس کی سہیلیاں پہلے سے ہر اسٹیپ اس کے ساتھ کرنے کی پریکٹس کیے بیٹھی ہوتی تھیں- اور جتنی دیر یہ لڑکیاں سڑک پر ڈانس کر کے سڑکوں کو توڑ رہی ہوتیں یا کھیتوں کو برباد کر رہی ہوتی تھیں اتنی دیر تک سارے تماشائی شرافت سے دائرہ بنالے ان کو دیکھتے رہتے یہاں تک کہ ولن بھی گانا ختم ہونے کے انتظار میں رہتا تاکہ اس کے بعد بڑک ماڑ کر ہیروئين کو کاندھے پر اٹھا کر اغوا کرنے کے لیے لے جا سکے-
7: ہر ہیرو پیانو بجانا جانتا تھا
دل کا حال بتانے کے لیے بھی گانا گانا ضروری ہوتا تھا جس کو گانے کے لیے چاکلیٹی ہیرو کو ایک بڑے سے پیانو کی ضرورت ہوتی جس کو ہر ہیرو بجانا بھی جانتا تھا- اور یہ پیانو ہمیشہ امیر ہیروئین کے گھر پایا جاتا تھا-
8: رسی سے بندھی ماں اور ہیروئين میں سے پہلے کس کو چھڑوائے
ہر فلم میں ہیرو کو اس امتحان سے ضرور گزرنا پڑتا تھا کہ اس کی ماں اور ہیروئين کو ولن رسی سے باندھ کر ایک بڑی فیکٹری کے گودام میں باندھ دیتا تھا اور ہیرو وہاں کھڑے ہو کر یہی سوچتا رہتا تھا کہ پہلے ماں کو بچاؤں یا ہیروئين کو اور اسی سوچ بچار میں مار دھاڑ شروع ہو جاتی تھی-
09: عدالت میں گواہی پر فلم کا خاتمہ
ساری مار دھاڑ کے بعد معاملہ عدالت میں جب جاتا اور سب کچھ ولن کے حق میں جا رہا ہوتا تھا اور جج صاحب فیصلہ کرنے والے ہوتے تھے اس وقت میں ہیرو صاحب کسی نہ کسی کی گواہی لے کر پہنچ جاتے اور عدالت کے فیصلے پر اثر انداز ہو کر سارا کھیل بگاڑ دیتے تھے اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگتے تھے-
امید ہے کہ یہ تمام مناظر آپ سب نے بھی فلموں میں ضرور دیکھے ہوں گے آپ کا کیا خیال ہے ماضی کی فلمیں بہتر تھیں یا حالیہ دور کی فلمیں بہتر ہیں-