باپ آج بھی شہید بیٹے کی قبر کے برابر میں سوتا ہے ۔۔ پاک فوج کے بہادر فوجی اسفندیار کی شہادت کیسے ہوئی تھی؟
کیپٹن اسفند یار بخاری پاکستان کی تاریخ میں ایسے بہادر نوجوان کیپٹن گزرے جنہوں نے اپنی زندگی میں بے شمار کامیابیاں اور اسناد حاصل کیں، چاہے فوج کے شعبے میں ہو یا کھیل کے کرکٹ ہو یا ہاکی ہر قسم کے میدان میں اسفندیار نے اپنی محنت کا لوہا منوایا۔ ان کی شہادت کے وقت جو بڑا معرکہ
انہوں نے کھیلا وہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا آپریشن تھا جس کو ایک کیپٹن نے خود اپنی محنت کے دم پر پورا کیا اور بناء کسی بڑے کمانڈوز کے کیا، اس آپریشن میں اسفند کے ماتحت جتنے بھی لوگ تھے ان میں سے کسی کی جان نہیں گئی صرف 2 زخمی تھے اور ان سب کو حیات بخش کر اسفند خود شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
14 اگست 1989 کو اٹک میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آرمی پبلک اسکول میں حاصل کی۔ اس ک بعد فضائیہ کالج کامرہ اور کیڈٹ کالج احسن ابدال سے ایف ایس سی مکمل کیا۔ پھر پاک فوج میں کمیشن اپلائی کیا
اور لیفٹینٹ بن گئے۔ ان کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی 118 لانگ کورس اور 11 ایف ایف ریجمنٹ سے تھا۔ ان کو اعزازی شمشیر اور دیگر کئی بڑے اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا اور یہ ایک گولڈ میڈلسٹ کیپٹن تھے جنہوں نے ہر کام میں ٹاپ آف دی آنر حاصل کر رکھا تھا۔
18 ستمبر 2015 کی رات دہشتگردوں نے بڈھ بیر ائیر بیس کو نشانہ بنایا ان کا ارادہ تھا کہ اس راستے سے وہ رہائشی آبادیوں میں داخل ہو جائيں گے اور پاک فوج کے جوانوں کے خاندانوں تک پہنچ کر ان کو یرغمال بنائیں گے- مگر کیپٹن اسفند یار جناح ونگ 48 کے ریپڈ رسپانس فورس کا حصہ تھے۔
کیپٹن اسفند یار نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس بہادری سے ان بزدلوں کا مقابلہ کیا کہ وہ کیمپ میں 50 میٹر تک بھی اندر داخل نہ ہو سکے اور ان سب کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا مگر ان مقابلے میں کیپٹن اسفندیار بھی جان کی بازی ہار گئے
سارے دہشتگرد شہید ہوگئے تھے تو سب کو لگا کہ آپریشن مکمل ہوگیا لیکن ایک دہشت گرد چھپ گیا تھا اس وقت جب اس کی موجودگی کی اطلاع ملی تو حولدار نے کہا کہ کیپٹن آپ اندر جائیں اسے میں جنم واصل کروں گا لیکن اسفندیار جوان خون تھا،
اس نے کہا سر آپ کے بچے ہیں آپ یہیں رکیں آپ کی زندگی میرے لیے قیمتی ہے آپ کو کچھ نہیں ہوگا، اس کا مقابلہ بھی میں خود ہی کروں گا۔ اس کے بعد انہوں نے دہشت گرد سے کہا کہ ابھی بندوق پھینک دو جس کا منہ نیچے تھا لیکن وہ نہ مانا اور ایک گولی کیپٹن کی ٹانگ سے چھو کر گزر گئی لیکن دوسری گولی اس کے سینے میں لگ گئی جو شہادت پانے کی وجہ ثابت ہوئی۔
کیپٹن اسفندیار کے والد نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب اس کو 10 لاکھ کا انعام ملا تو ا سنے مجھے وہ پیسے دیے، اس سے میں نے اسفند کیلئے ایک گھر خریدا وہاں ایک عورت رہتی تھی۔ ایک دن اس کو خواب میں آیا کہ یہ بہت پاک زمین ہے۔ اور گھر کے درمیان والا حصہ اکثر روشنی سے منور ہو جایا کرتا تھا،
جب اس عورت نے واقعہ بتایا اور اپنا خواب سنایا تو کوئی اس کی بات پر یقین نہیں کرتا تھا لیکن 22 دن بعد جب اسفند شہید ہوا اور اس کی قبر اسی جگہ بنی تو اس عورت نے مجمعے میں سب کے سامنے کہا یہ میں نے خواب دیکھا تھا کہ یہ پاک جگہ ہے اور بہت روشن مقام ہے
اسفند کے والد اکثر اس کی قبر کے براب رمیں تکیہ رکھ کر لیٹ جاتے ہیں اور جوان بیٹے کی شہادت اور قربانیوں کو یاد کرکے اللہ سے اس کے مقام کو مزید بلند کرنے میں کی دعا دیتے ہیں۔
جس دن اسفند کی شہادت ہوئیا س کے اگلے دن گھر والوں کو بیٹے کا رشتہ لے کر جانا تھا مگر اسفند بڑی منزل کا مسافر تھا جو اللہ کے پاس شہید کے روپ میں حاضر ہوا۔