ایک لڑکی کی وجہ سے اجڑنے والا بھارت کا وہ گاؤں جہاں شاندار عمارتوں کے باوجود 200 سال سے کوئی رہائش پذیر نہیں ۔۔۔
ایک لڑکی کی وجہ سے اجڑنے والا بھارت کا وہ گاؤں جہاں شاندار عمارتوں کے باوجود 200 سال سے کوئی رہائش پذیر نہیں ۔۔۔
لاہور (ویب ڈیسک) نامور بھارتی صحافی شکیل اختر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔انڈیا کی ریاست راجستھان کا جیسلمیر شہر ریگستانی خطے میں واقع ہے۔ شہر سے باہر سینکڑوں میل تک ریگستان کا طویل سلسلہ پھیلا ہوا ہے جہاں جگہ جگہ ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں۔ شہر سے
چند میل کی دوری پر ایک خوبصورت ‘کلدھرا’ نامی گاؤں جو گذشتہ 200 برس سے ویران پڑا ہے۔اس گاؤں کے باشندے 200 برس قبل راتوں رات اپنا گاؤں چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں لوٹے۔کلدھرا گاؤں اب محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں ہے۔ مقامی روایت کے مطابق دو سو برس قبل جب جیسلمیر رجواڑوں کی ایک ریاست تھی اس وقت کلدھرا گاؤں اس ریاست کے سب سے خوشحال گاؤں میں شمار ہوتا تھا، یہاں سے سب سے زیادہ ریونیو آتا تھا۔یہاں خوشیوں کی تقاریب ہوتیں اور روایتی رقص و موسیقی کی محفلیں جمتیں
۔یہ گاؤں پالیوال برہمنوں کا مسکن تھا۔ گاؤں کی ایک لڑکی شادی ہونے والی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی۔جیسلمیر ریاست کے دیوان سالم سنگھ کی نظر اس لڑکی پر پڑ گئی اور وہ اُن کی خوبصورتی پر عاشق ہو گئے اور لڑکی سے شادی کرنے کی ضد کی۔مقامی روایات کے مطابق سالم سنگھ ایک ظالم شخص تھا جس کے ظلم کے قصے دور دور تک مشہور تھے۔ مگر اس کے باوجود کلدھرا والوں نے سالم سنگھ کو لڑکی کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا گیا۔سالم سنگھ نے گاؤں والوں کو سوچنے کے لیے چند دنوں کا وقت دیا۔ گاؤں والے جانتے تھے کہ اگر انھوں نے سالم سنگھ کی بات نہیں مانی تو وہ گاؤں میں بدامنی اور خ و ن خرابہ کر دے گا۔روایت کے مطابق کلدھرا کے باشندوں نے گاؤں کے مندر کے پاس واقع ایک چوپال میں پنچایت کی اور اپنی بیٹی اور اپنے گاؤں کا وقار
بچانے کے لیے گاؤں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ سارے گاؤں والے ایک رات سنا ٹے میں اپنا سارا سامان، مویشی، غلہ اور کپڑے لے کر اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے یہاں سے نقل مکانی کر گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔جیسلمیر میں سالم سنگھ کی حویلی اب بھی موجود ہے لیکن اسے دیکھنے کوئی نہیں جاتا۔جیسلمیر کے نواح میں واقع کلدھرا گاؤں میں کئی قطاروں میں بنے ہوئے پتھر کے مکانات اب دھیرے دھیرے کھنڈر بن چکے ہیں۔ لیکن ان کھنڈروں سے بھی ماضی میں اس گاؤں کی خوشحالی کا پتہ چلتا ہے۔بعض گھروں میں چولہے، بیٹھنے کی جگہیں، گھڑے رکھنے کی جگہوں کی موجودگی سے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی یہاں سے ابھی گیا ہو۔
یہاں کے در و دیوار سے اداسی کا احساس ہوتا ہے۔ کھلے مقام پر بسا ہونے کے سبب سناٹے میں سرسراتی ہوئی ہوا کی آواز ماحول کو اور بھی افسردہ کر دیتی ہے۔مقامی لوگ اپنے بزرگوں کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ رات کے سناٹے میں کلدھرا کے کھنڈروں سے اکثر کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ مقامی طور پر یہ روایت کافی مشہور ہے کہ کلدھرا کے باشندوں کی آتمائیں یہاں بھٹکتی ہیں۔راجہستھان حکومت نے اس گاؤں کو سیاحوں کی دلچسپی کے لیے یہاں کے کچھ مکانات کو پہلے کی طرح بحال کر دیا ہے۔ گاؤں کا مندر اب بھی اپنی جگہ گزرے ہوئے وقت کے شاہد کی طرح صحیح و سالم کھڑا ہے۔ہر برس ہزاروں سیاح اس گاؤں کو دیکھنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ اس گاؤں کو بہت عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ایک اور مقامی روایت یہ مشہور ہے کہ کلدھرا کے باشندے جب یہ گاؤں چھوڑ رہے تھے اس وقت انھوں نے یہ بددعا دی تھی کہ یہ گاؤں کبھی آباد نہیں ہو گا۔ ان کے چلے جانے کے دو سو برس بعد بھی جیسلمیر کے ریگستان میں یہ گاؤں ویران پڑا ہے۔