بچوں کی خاطر ٹیکسی چلائی مگر بچے ہی مجھے اکیلا چھوڑ گئے
بچوں کی خاطر ٹیکسی چلائی مگر بچے ہی مجھے اکیلا چھوڑ گئے .. جانیے ایسی ماں کی کہانی، جس نے بچوں کے منہ موڑنے کے بعد بھی ان کے لیے دعا کرنا نہیں چھوڑی
سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز دیکھی ہوں گی جس میں زندگی کے اتار چڑھاؤ کے باوجود کئی لوگ اپنے گھر کا پیٹ پالنے کے لیے وہ کام کرتے ہیں، جسے دیکھ کر لوگ بھی حیران ہوتے ہیں۔ ہم ایک ایسی ہی خبر لے کر آئے ہیں جس میں آپ کو ایک ایسی خاتون کے بارے میں بتائیں گے جس نے ٹیکسی چلا کر اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا، قابل بنایا
مگر آج بچوں نے ماں کو ہی بے دخل کر دیا۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی زاہدہ کاظمی 63 سال کی ہیں۔ ان کی زندگی میںاتار چڑھاؤ اس حد تک ہیں کہ شوہر کی وفات کے بعد بچے بھی چھوڑ گئے۔ مشکل گھڑی اس وقت ہوتی ہے جب ایک ماں اپنے بچوں کی خاطر سب کچھ قربان کردے مگر اس کا صلہ بچے یہ دیں کہ ماں ہی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں
کہ تم ٹیکسی چلاتی ہو۔ زاہدہ کاظمی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزار رہی تھیں مگر 1971 میں سقوط ڈھاکا کےوقت ان کے شوہر ان سے بچھڑ گئے اور پھر کبھی نہ ملے۔ شوہر کے اس طرح اچانک بچھڑ جانے پر ان کی زندگی ہی بدل گئی تھی۔ بچوں کو سنبھالنے کی، کھانا کھلانے کی ذمہ داری زاہدہ پر آ گئی تھی۔ زاہدہ گھروں میں کام کر کے بچوں کا پیٹ پالتی اور انہیں پڑھا بھی رہی تھیں۔
ان کے 6 بچے ہیں جن میں 2 بیٹے اور 4 بیٹیاں شامل ہیں۔ زاہدہ نے بچوں کیخاطر امن و امان کی بدتر صورتحال میں بھی ٹیکسی چلائی، طالبان کے دور میں بھی زاہدہ لورالائی اور کے پی کے ان علاقوں میں گئیں جہاں مرد بھی جانے سے ڈرتے تھے۔ زاہدہ کہتی ہیں کہ طالبان نے میری گاڑی کو روک کرسوالات کیے تھے مگر میرے جواب پر انہوں نے مجھے جانے بھی دیا
اور اچھا سلوک کیا۔ زاہدہ بتاتی ہیں کہ میرے 6 بچوں کو پڑھا لکھا کر ان کی شادی کرائی، انہیں اس قابل بنایا کہ وہ خود کما سکیں، اور آج انہی نے مجھے بے گھر کر دیا ہے۔ زاہدہ کہتی ہیں کہ بیٹیاں اچھی ہیں مگر بیٹوں نے رابطہ ختم کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ تم ٹیکسی نہ چلاؤ، اس سے ذلت ہوتی ہے۔ زاہدہ اس وقت پھوٹ پھوٹ کر روتی ہیں، جب انہیں اپنی پوتی یاد آتی ہے۔
کیونکہ ان کی بہو انہیں بیٹے اور پوتی سےملنے نہیں دیتی۔ زاہدہ نے بچوں کی شادی کرانے کے بعد دوسری شادی کی اور ان کی بیٹی بھی پیدا ہوئی، مگر شادی کے کچھ سالوں بعد ہی شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اور اس طرح ایک بار پھر ان پر اپنی بیٹی کی ذمہ داری آ گئی۔ مگر اس بار وہ پُر امید ہیں کہ میری بیٹی میرا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ زاہدہ اسلام آباد، راولپنڈی،
مری، سمیت کئی شہروں میں ٹیکسیچلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے جہاں کی بھی سواری ملتی ہے میں لے لیتی ہوں۔ زاہدہ اگرچہ بچوں کی بے رخی پر دلبرداشتہ ہیں مگر پھر بھی وہ اپنی مامتا کو نہیں مار سکیں کہتی ہیں کہ بچے تو میرے ہی ہیں نا، ان کو بد دعا کیسے دے سکتی ہوں۔ چونکہ زاہدہ کا تعلق سید گھرانے سے ہے یہی وجہ ہے کہ وہ زکوٰۃ نہیں لیتی، زاہدہ نے محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کو کھلایا بھی اور پڑھایا بھی۔
زاہدہ کاظمی اگرچہ اب اس طرح نہیں ہیں، ان کے چہرے پر جھریاں آ چکیہیں، ہاتھوں اور پیروں کی جلد بھی اب جواب دے رہی ہیں۔ مگر مامتا اور بیٹی کو کامیاب کرانے کے لیے زاہدہ خود محنت کر رہی ہیں۔ زاہدہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہی ہیں اور محنت ہی پر منحصر رہنے کا عزم رکھتی ہیں۔