in

ایم بی بی ایس کے فائنل امتحان میں 23 میڈل حاصل کرنے والی ڈاکٹر نور

ایم بی بی ایس کے فائنل امتحان میں 23 میڈل حاصل کرنے والی ڈاکٹر نور

لاہور (ویب ڈیسک) نامور خاتون صحافی حمیرا کنول بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کانووکیشن کے موقع پر 23 میڈلز گلے میں پہنے رکھنا اتنا آسان نہیں تھا۔ میں واقعی تھک گئی تھی مگر میرے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔‘وہ دن نہ صرف ڈاکٹر نور الصباح بلکہ صوبہ پنجاب

کے شہر لاہور میں واقع کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے 161 سال کے دور میں تاریخی دن تھا کیونکہ ایک طلبہ کو 23 میڈلز سے نوازا جا رہا تھا۔ یہ اعزاز انھیں یونیورسٹی کے گیارھویں کانووکیشن پر حاصل ہوا۔ایک طرف ڈاکٹر نورالصباح کو دیے جانے والے میڈلز کی طویل فہرست ہے تو دوسری طرف ان کی غیر نصابی سرگرمیوں کی تفصیل۔یہ اعزاز ملنے پر نور انتہائی خوش ہیں اور جلد ہی بیرون ملک سے طب کے شعبے میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند بھی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ انھیں مجموعی طور پر 13 گولڈ اور 10 سلور میڈل ملے ہیں۔ یہ میڈل ہر سال میڈیکل کے پروفیشنل ایگزیمز (پروف) میں پوزیشن اور مضامین میں ٹاپ کرنے پر ملتے ہیں۔کنیئرڈ کالج سے ایف ایس سی کرنے والی نور نے بورڈ میں تو کوئی ٹاپ پوزیشن حاصل نہیں کی تھی لیکن میڈیکل کے لیے انٹری ٹیسٹ میں ٹاپ کرنے کے بعد انھوں نے اگلے پانچ برس کی پڑھائی میں ہر سال میڈل ٹیبل پر اپنا نام لکھوایا۔نور کہتی ہیں کہ سوائے فورتھ ایئر کے، وہ ہر سال فرسٹ پوزیشن لیتی رہیں اور پانچ برس میں صرف ایک بار سیکنڈ آئیں۔کیونکہ میڈیکل کی پانچ سالہ تعلیم کے دوران نور اکثر مضامین میں ٹاپ کرتی رہی تھیں اسی لیے انھیں کلاس کی بہترین طالب علم کا ایوارڈ بھی ملا اور ساتھ ہی ساتھ نمایاں یعنی سب سے ممتاز طلبعلم کا خطاب بھی ملا۔یہ سفر کتنا مشکل رہا اور اتنے سارے میڈلز کے لیے انھیں کتنی محنت کرنا پڑی، اس سوال کے جواب میں نور نے کہا کہ

’میری والدہ ڈاکٹر ہیں تو میرے لیے یہ شعبہ نیا تو نہیں تھا مگر اس میں مجھے ذاتی دلچسپی بھی تھی۔‘’مجھے میڈیسن کے بارے میں جاننے اور پڑھنے کا شوق تھا، میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ انسانی جسم کیسے کام کرتا ہے۔ کانونٹ سکول میں میٹرک کے بعد میں نے کالج میں پری میڈیکل میں داخلہ کیا اور 97 فیصد نمبر حاصل کیے۔‘تو ڈاکٹر بننے کا خواب پورا ہونے کی جانب یہ سفر کیسا رہا، اس پر نور کہتی ہیں کہ ’ایف ایس سی تک آپ بس سٹوڈنٹ ہوتے ہیں۔ آپ کو اتنا آئیڈیا نہیں ہوتا کہ ایم بی بی ایس اتنا مشکل ہے۔‘’بہت سے چیلینجز ہوتے ہیں اور آج ایم بی بی ایس کرنے کے بعد بھی مجھے نہیں لگتا کہ میں پوری طرح جانتی ہوں کہ یہ کتنا مشکل شعبہ ہے کیونکہ ابھی مجھے پریکٹس کرنی ہے، ٹریننگ کرنی ہے۔‘ڈاکٹر کو مسیحا کہا جاتا ہے لیکن نور سمجھتی ہیں کہ ایک چیز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور وہ ڈاکٹرز کی اپنی ذہنی صحت ہے۔وہ کہتی ہیں کہ میڈیکل سٹوڈنٹ اور ڈاکٹرز کی ذہنی صحت کے بارے میں بہت کم بات ہوتی ہے اور ’ہماری میڈیکل کمیونٹی کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے دو سال میں ہم مریضوں کو نہیں دیکھ رہے ہوتے بس پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن کیونکہ یہ پڑھائی اتنی مشکل ہوتی ہے وہاں سے ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ ڈاکٹر بننے والوں کو بھی سپورٹ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں سلیبس کا بہت دباؤ ہوتا ہے، امتحانات کا بہت دباؤ ہوتا ہے۔۔۔ تو مجھے لگتا ہے کہ یونیورسٹیوں کی جانب سے اپنے سٹوڈنٹس کو سپورٹ کرنا چاہیے۔‘

اپنے پانچ سالہ تعلیمی دور کے تین سال میں میڈیکل سٹوڈنٹ کی حیثیت سے اپنے تجربے اور مشاہدے پر بات کرتے ہوئے نور نے کہا کہ ’آپ ایک دم سے کسی مریض کو بھول نہیں سکتے۔ اس کی تکلیف جسے آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ایک بے بسی کی کیفیت بھی، دوسرے ہمارے گورنمنٹ سیکٹر میں وسائل بہت کم ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے لیے بھی ایک بے بسی کی صورتحال ہوتی ہے۔‘نور بتاتی ہیں کہ ’ہم فیلو سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز اس موضوع پر بات کرتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس بنیاد پر سوچا نہیں جا رہا جیسے ہونا چاہیے۔‘’ہم گائنی کی روٹیشن پر ہوتے تھے تو مجھے یہ صورتحال بہت تکلیف دیتی تھی جب میں یہ دیکھتی تھی کہ خواتین کو زیادہ تر لوگ ایسی صورتحال میں لے کر آتے ہیں جب وہ موت کے خطرے سے دوچار ہوتی ہیں۔ اب بھی ہسپتال لانے کو ترجیح نہیں دی جا رہی ہوتی۔ خاندان کے ہر فرد کے مشورے ہو رہے ہوتے ہیں اور میں یہ سب دیکھتی تھی تو مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ بہت ضرورت ہے کہ لوگوں کو آگاہی دی جائے کہ ہسپتال آنا اور علاج کروانا کتنا ضروری ہے۔‘نورالصباح نے 23 میڈلز تو لیے لیکن کیا وہ سارا وقت پڑھائی ہی کرتی تھیں، اس سوال پر نور کا جواب نفی میں تھا۔انھوں نے بتایا کہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتی رہی ہیں۔ ’میں نے تقریری مقابلوں میں حصہ لیا اور ایف ایم پر شوز کیے۔ کالج میں ہر سال ہونے والے ڈرامیٹک سوسائٹی کے ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔‘

وہ کہتی ہیں ’سکول میں چار گھنٹے پڑھائی اور پیپرز کے دنوں میں کچھ زیادہ۔ تو میری روٹین ایسی ہی رہی کہ آپ کو مینج کرنا ہے، اپنا ٹائم ٹیبل اپنا کام دیکھ کر۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ٹائم کو مینج کرنا ایک ایسی چیز ہے جو ہر وقت کرنا ہوتا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ میں اب بھی یہ کر رہی ہوں۔‘نور کہتی ہیں کہ کورس کی کتابوں کے علاوہ ’میں افسانوں سے لے کر دوسرے موضوعات پر بھی کتابیں پڑھتی رہی ہوں اور میں کلاس کوارڈینیٹر بھی رہی تو یہ ہے کہ پڑھنے کے علاوہ مختلف شعبوں میں بھی نمایاں کام کیا۔‘اپنے مستقبل پر نور کہتی ہیں

کہ وہ بیرون ملک جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں ’کیونکہ ہم پاکستان میں بہت سی جدید طبی چیزوں میں پیچھے ہیں۔ باہر سے پروفیشنلز ہمارے پاس نہیں آتے، یہاں سے لوگ باہر جاتے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’میرا ارادہ تو یہی ہے کہ فی الحال میں انٹرنل میڈیسن میں مہارت حاصل کروں اور آگے کیا کرنا ہے ابھی اس بارے میں نہیں سوچا۔‘اس شعبے میں خواتین کو شادی کے بعد اکثر اوقات یہ پیشہ چھوڑنا بھی پڑ جاتا ہے جسے اس شعبے کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جاتا ہے۔ نور کہتی ہیں کہ یہ ایسا بڑا مسئلہ ہے اور ’اگر آپ کا پارٹنر، آپ کی فیملی آپ کے خوابوں کا احترام رکھے۔

‘وہ کہتی ہیں کہ ’خود میرا نکاح ہو چکا ہے لیکن ابھی میری پڑھائی کی وجہ سے مجھے وقت ملا ہے اور میں خوش قسمت ہوں کہ دوسری جانب سے اسے سمجھا جا رہا ہے اور سپورٹ ملی ہے کیونکہ ہر تعلق میں وقت دینا ہوتا ہے۔‘اپنے سکول کالج میں نمایاں کارکردگی دکھانے والی نور سوشل میڈیا پر اتنی متحرک دکھائی نہیں دیتیں۔انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’سوشل میڈیا پر وائرل ہونا اور پرائیویسی میں مداخلت پر میرے ملے جلے تاثرات تھے لیکن اگر میں نوجوان لڑکیوں کو اپنے خواب پورے کرنے کے لیے متاثر کر سکتی ہوں تو یہ قابل قبول ہے۔‘(بشکریہ : بی بی سی )

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جنگِ عظیم دوئم میں ریچھوں کو فوج میں بھرتی کیوں کیا گیا؟ وہ بات جو بہت کم لوگ جانتے ہیں

افواہیں دم تو ڑ گئیں، پیٹرول پر سارے ٹیکسز ختم ۔۔۔۔آخرکار خوشخبری آگئی