باپ اگر دنیا سے چلا جائے تو سگے رشتے دار بھی ساتھ نہیں دیتے ۔۔ بیٹیوں کی زندگی میں باپ سے بڑھ کر کوئی نہیں، کچھ ایسی تلخ باتیں جو معاشرے میں عام ہیں
بیٹیوں کے لیے باپ سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوتا۔ بیٹی جتنا اپنے باپ سے قریب ہوتی ہے اتنا ایک بیٹا کبھی والد سے دوستی نہیں کر پاتا۔ ہر باپ اپنی بیٹی کے لیے جس قدر سوچتا ہے وہ کوئی اور نہیں سوچ سکتا۔ باپ کی اہمیت بچوں کی زندگی میں یکساں ہوتی ہے لیکن جو محبت کا رشتہ قدرتی طور پر باپ بیٹی کے درمیان ہوتا ہے اس کا اندازہ شاید اس وقت ہوتا ہے جب والد ساتھ نہ ہوں، وہ دور ہو جائیں یا دنیا سے چلے جائیں۔
باپ گھر میں موجود ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے سارا زمانہ آپ کے ساتھ ہے۔ جب باپ گھر میں نہ ہو یا دنیا میں نہ ہو تو سگے رشتے بھی پرائے لگنے لگتے ہیں۔ کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک منفی حقیقت ہے جو ہر گھر میں کہیں نہ کہیں نظر آتی ہے۔ باپ گھر کا ایک مضبوط فرد ہوتا ہے۔ باپ کی موجودگی میں کوئی بھی آپ کو کچھ نہیں کہہ پاتا۔ خصوصاً جب بیٹیوں کی بات آتی ہے تو باپ اپنی بیٹیوں پر انگلیاں اٹھنے ہی نہیں دیتے ہیں۔ لیکن جب وہ ساتھ نہ ہوں تو کوئی بھی انگلی اٹھانے میں دیر نہیں لگاتا۔
اکثر گھرانوں میں بڑی خواتین کہتی ہیں: ” شادی سے قبل باپ کی چپل اور شادی کے بعد شوہر کی چپل گھر کی دہلیز پر نظر آئے تو عورت محفوظ ہوتی ہے۔ ”
والد کے عالمی دن کے موقع پر جہاں ہر کوئی اپنے والد کے ساتھ تصاویر شیئر کر رہا تھا، اپنے والد کی باتیں سوشل میڈیا پر شیئر کر رہا تھا وہیں وہ لوگ جن کے والد اس دنیا میں نہ رہے وہ والد کی یاد میں عشکبار تھے۔ اداکارہ ایمن اور منال خان
جن کے والد کا انتقال 1 جنوری 2021 کو ہوا تھا وہ اپنے والد کے ساتھ تصویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھتی ہیں: ” اعتبار بھی آجائے گا ملو تو سہی، دھوپ میں کھڑا جل رہا ہوں سایہ دو مجھے۔ مجھے کوئی بھی پاپا کی طرح پیار نہیں کر سکتا۔ ”
سوشل میڈیا پر سول سسٹر نامی پیج پر ایک خاتون نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اپنی زندگی کی ایک ایسی تلخ کہانی شیئر کی جس کو جان کر شاید آپ کو بھی اپنے والد کی اہمیت کا اندازہ ہوگا کہ باپ خصوصاً ایک بیٹی کے لیے کتنا اہم ہے۔ خاتون لکھتی ہیں:” ہم 7 بہنیں ہیں۔ جب تک ہمارے والد زندہ تھے، ہمارے کسی بھی رشتے دار کی ہمت نہیں ہوئی
ہمیں کچھ بھی کہنے کی۔ ہمارے والد سب کے ساتھ مل بانٹ کر رہتے تھے ان کا اپنا کاروبار تھا وہ ہمیشہ ہی سب کی مدد کرتے تھے۔ کبھی کوئی رشتے دار دکھ میں ہو اس کا سہارا بنتے تھے۔ لیکن جوں ہی ہمارے والد دنیا سے گئے اور ہمیں کسی اپنے کے سہارے کی ضرورت پڑی تو کسی نے ہمارا ہاتھ نہ تھاما، نہ ہماری مدد کی۔ والد کی ساری جائیداد دھوکے سے لوگوں نے اپنے نام کرلی۔
جب اپنے باپ کے گھر سے بے سرو سامانی میں نکالے گئے اور دنیا کی ٹیڑھی نگاہیں دیکھیں تو اندازہ ہوا کہ بیٹیوں کی زندگی اسی وقت ختم ہو جاتی ہے جب ان کا سب سے مضبوط سایہ دنیا سے چلا جاتا ہے۔ جن کے والد زندہ ہیں وہ ان کی قدر کریں کیونکہ ان کے بعد کوئی آپ کو نہیں پوچھتا۔ ”