وزیر اعظم عمران خان کو کیسے اور کس سازش کے تحت نکالا جا رہا ہے؟؟تین سال ڈٹ کر مخالفت کرنے والے سینئر صحافی انصار عباسی عمران خان کے حق میں ڈٹ گئے۔تلخ حقائق بھی قوم کے سامنے رکھ دیے
اسلام آباد(ویب ڈیسک) انصار عباسی لکھتے ہیں سیاست پر بات کرنا محال ہو گیا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت پیدا کر دی گئی ہے کہ سیاسی رہنما تو ایک دوسرے کے متعلق جو کہتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے، ان سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے ووٹرز وسپورٹرز تو تمام حدیں ہی پار کر رہے ہیں
بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ غلاظت اور گندگی کا کھلا اظہار کیا جا رہا ہےتو بے جا نہ ہوگا۔ پہلے تو ایک دوسرے کے رہنماؤں کے متعلق ہر ممکنہ بے ہودہ بات اور مذاق کیا جاتا ہے اور پھر اگر سیاسی سوچ کا اختلاف دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کے درمیان ہے تو وہاں بھی معاملہ ہلکی پھلکی لڑائی تک تو پہنچ ہی جاتا ہے۔ جو عمران خان کا سپورٹر ہے
تو اُس کے لیے عمران خان کی ہر بات پتھر پر لکیرہے، یہی حال نواز شریف و مریم اور آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے ووٹرز وسپورٹرز کا ہے۔ اپنا لیڈر کوئی غلط بات بھی کرے تو وہ ٹھیک، مخالف ٹھیک بات بھی کرے تو غلط۔ اب تو اس سیاست نے ایسی تقسیم کر دی ہے کہ شاید کوئی گھر یا خاندان ایسا نہیں جہاں سیاست پر بات کرنا ایک رِسک نہ بن چکا ہو۔ صحافیوں کے لیے یہ رِسک بہت بڑھ چکا ہے۔
اُنہوں نے ہر سیاسی عمل پر اپنی رائے دینی ہے اور اُن کو اپنی اسی رائے کی وجہ سے سوشل میڈیا کے ذریعے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ جس سیاسی تقسیم کی میں نے اوپر بات کی، اُس کا کئی صحافی شکار ہو چکے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ توازن قائم رکھنے میں ناکام رہے اوریہ صاف محسوس ہورہا ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی رہنما کی محبت یا کسی دوسرے سیاسی رہنما کی نفرت میں حقیقت بیان کرنے سے قاصر ہیں لیکن اگر کوئی ایمانداری سے بھی اپنی رائے دے تووہ بھی سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں اور عام سپورٹرز اور ووٹرز کے غیض و غضب کا شکار ہوجاتا ہے۔
میں تو اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جو بھی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت ہو ہمیں اچھے کام کی تعریف اور بُرائی کی نشاندہی کرنی چاہیے چاہے آپ کے متعلق دوسرے جو مرضی کہیں۔ کسی بھی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کی اندھی تقلید خطرناک ہے اور یہ ہماری سیاست کا وہ المیہ ہے جس نے پوری قوم کو جکڑ لیا ہے اور جس کی وجہ سے نفرت بڑھ رہی ہے اور معاشرتی تقسیم گہری سے گہری ہو رہی ہے۔ میں نے جب نواز شریف کی سزا پر سوال اُٹھائے اور 2018 الیکشن کو پولیٹیکل انجینئرنگ جانا تو تحریکِ انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا، گالم گلوچ بھی کی اور لفافہ صحافی ہونے کا لیبل بھی چسپاں کیا۔
اب جب میں عمران خان کے نکالے جانے کے لیے Unfair Means کے استعمال پر اعتراض کر رہا ہوں اور اس کی مخالفت کر رہا ہوں تو سوشل میڈیا پر ن لیگ کے حمایتی مجھ پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ مجھے نہ پہلے والوں کی گالم گلوچ سے فرق پڑا اور نہ ہی ان شاء اللہ اب والوں کے حملوں سے گھبرانے والا ہوں۔ میں نے ماضی میں جو غلط ہوا بغیر کسی دشمنی اور عناد کے اُسے غلط کہا تو آج جو غلط ہو رہا ہے اُس پر کیوں خاموش رہوں؟ اپنی آواز کیوں نہ اُٹھاؤں؟ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اگر بات کرنی ہے یا کسی ایک جماعت یا رہنما کے حق میں ہی بات کرنی ہے تو ایسا میں نے نہ پہلے کیا نہ اب کروں گا۔
موجودہ حالات میں میں اپنی معلومات کی بنیاد پر رائےکا اظہار کر چکا ہوں۔ میری معلومات کا ذریعہ اپوزیشن کے وہ افراد ہیں جو بہت کچھ جانتے ہیں۔ پھر جوکچھ سندھ ہاؤس میں دنیا نے دیکھا، کیا وہ جائز تھا؟ میں ایسے میں عمران خان کو نکالے جانے کی حمایت نہیں کر سکتا۔