سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد عارضی اضافے کے پیچھے کیا کہانی چھپی ہے ؟ بی بی سی نے بھانڈا پھوڑ دیا
لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی تنویر ملک بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفاقی حکومت نے ’انڈر پریولجڈ‘ یعنی کم مراعات یافتہ ملازمین کو 15 فیصد ’ڈسپیریٹی الاؤنس‘ دینے کا اعلان کیا ہے جس کا اطلاق یکم مارچ 2022 سے ہو گا یعنی وفاقی ملازمین کو مارچ کی تنخواہ
لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی تنویر ملک بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفاقی حکومت نے ’انڈر پریولجڈ‘ یعنی کم مراعات یافتہ ملازمین کو 15 فیصد ’ڈسپیریٹی الاؤنس‘ دینے کا اعلان کیا ہے جس کا اطلاق یکم مارچ 2022 سے ہو گا یعنی وفاقی ملازمین کو مارچ کی تنخواہ میں یہ اضافہ ملے گا۔
وفاقی وزارت خزانہ کے مطابق یہ الاؤنس گریڈ ایک سے گریڈ 19 تک کے ملازمین کو ملے گا اور انھیں یہ اُن کی جاری بنیادی تنخواہ پر دیا جائے گا۔تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے تنخواہوں کے ساتھ پندرہ فیصد الاؤنس کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنا آیا ہے جب ملک میں مہنگائی کی شرح بلند سطح پر موجود ہے اور مقامی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے جائزوں کے مطابق موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح ’ڈبل ڈیجیڈ‘ میں رہنے کا امکان ہے تاہم کئی تجریہ کار اس اضافے کی وجوہات کو ملک کی سیاسی صورتحال سے بھی جوڑ رہے ہیں۔وزارت خزانہ کے ترجمان نے اس الاؤنس کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا حکومت کا یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کی پالیسی کے مطابق ہے جس میں انھوں نے ملک میں تنخواہیں بڑھانے کے لیے کہا ہے
اور اس سلسلے میں وزیر اعظم نے پہل کر کے مثال قائم کی ہے۔وفاق کی جانب سے ملازمین کے لیے اس الاؤنس کا اعلان کرتے ہوئے صوبوں کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس کا اطلاق کریں۔یہ الاؤنس ایک ایڈ ہاک (عارضی) ریلیف کے طور پر دیا جائے گا اور اسے تنخواہ میں ضم کرنے کا فیصلہ ’پے اینڈ پنشن کمیشن‘ کی سفارشات کی روشنی میں کیا جائے گا۔وفاق کے مختلف محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں اور انھیں دیے جانے والے الاؤنس میں کافی فرق ہے اور اسی فرق کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے اس الاؤنس کا اعلان کیا گیا ہے۔بی بی سی اردو کی جانب سے کچھ وفاقی ملازمین سے جمع کی گئی معلومات کے مطابق
مختلف وفاقی اداروں اور محکموں کے درمیان تنخواہوں کے فرق کی شرح مختلف ہے۔ سیکریٹریٹ ملازمین کے مقابلے میں کچھ وفاقی اداروں کی تنخواہیں ستر فیصد سے لے کر 170 فیصد تک زیادہ ہیں۔ اوسطاً سیکرٹیریٹ ملازمین کی تنخواہیں مختلف وفاقی اداروں کے مقابلے میں سو فیصد کم ہیں۔ان وفاقی ملازمین کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق حکومت کی جانب سے گذشتہ برس 25 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا تھا اور موجودہ ایڈہاک ریلیف دینے کے بعد اس کا مجموعی اثر چالیس فیصد تک جا پہنچا ہے تاہم ابھی بھی سپریم کورٹ، نیب، ایف آئی اے، قومی اسمبلی، سینیٹ، وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور کچھ دوسرے اداروں کے مقابلے میں کم مراعات یافتہ ملازمین کی تنخواہیں ساٹھ فیصد تک کم ہیں۔وزارت خزانہ کے اُمور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی خلیق کیانی بتاتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے اداروں اور محکموں میں کرنے والے ملازمین وفاقی سرکاری ملازمین کہلاتے ہیں تاہم ان اداروں اور محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں اور الاونسوں میں فرق ہے۔انھوں نے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا وزیر اعظم سیکریٹریٹ، صدر ہاؤس، سپریم کورٹ، ایف بی آر اور اسی طرح چند دوسرے اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں دوسرے وفاقی محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں سے زیادہ ہوتی ہیں جس کی وجہ انھیں ملنے والے مختلف الاؤنس ہوتے ہیں۔کیانی نے بتایا کہ گذشتہ سال اس سلسلے میں وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کی جانب سے ہڑتالیں اور جلوس بھی نکالے گئے تھے اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ تمام وفاقی ملازمین کی تنخواہوں کو مساوی کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ پندرہ فیصد الاؤنس کا اعلان اِسی فرق کر ختم کرنے کا اقدام ہے۔ تاہم ان کے مطابق اس کے باوجود مختلف وفاقی اداروں اور محکموں کے درمیان تنخواہوں میں فرق برقرار رہے گا۔ خلیق نے کہا پندرہ فیصد الاؤنس سے کسی حد تک کم مراعات یافتہ ملازمین کی اشک شوئی ہو سکے گی۔وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر کہا کہ یہ بات صحیح ہے کہ مختلف وفاقی محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں کے درمیان فرق ہے اسی لیے جو ملازمین کم تنخواہ لے رہے ہیں انھیں ‘انڈر پریولجڈ’ ہونے کی بنیاد پر پندرہ فیصد الاؤنس دینے کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ اس فرق کو ختم کیا جا سکےپاکستان میں تنخواہوں میں اضافہ یا ان میں الاونس کا اعلان عمومی طور پر جون میں کیا جاتا ہے جب وفاقی بجٹ پارلیمان میں پیش ہوتا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت نے فروری میں الاؤنس کا اعلان اور یکم مارچ سے عمل درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔خلیق کیانی نے بتایا کہ اس الاؤنس کی ایک وجہ سیکریٹریٹ ملازمین کی جانے سے کیا جانے والے احتجاج ہے۔ انھوں نے کہا ملازمین نے پندرہ جنوری کو ایک احتجاج کیا تھا اور انھوں نے دس فروری کو بھی احتجاج اور سیکریٹریٹ کے لاک ڈاؤن کا اعلان کر رکھا تھا تاہم اس سے پہلے وفاقی حکومت نے ان کے لیے خصوصی الاؤنس کا اعلان کر دیا۔ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ موجودہ وقت میں اس الاونس کا اعلان یقینی طور پر مہنگائی کے پیش نظر بھی کیا گیا ہے
کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔انھوں نے کہا اگرچہ یہ ریلیف کسی حد تک ملازمین کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں ریلیف فراہم کرے گا۔ڈاکٹر اکرام نے کہا آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو پرسنل انکم ٹیکس، جس میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں اضافہ شامل ہے، کو بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تنخواہ میں شامل الاؤنس پر بھی ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے اور ایک ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف ٹیکس میں چھوٹ کے خاتمے کے لیے کہہ رہا ہے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ الاؤنس ٹیکس سے مبرا ہو۔وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے بجٹ سے چند ماہ قبل اس الاونس کے اعلان پر کہا کہ اس اقدام کی سب سے بڑی وجہ تو وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے نجی شعبوں کو تنخواہوں میں اضافے کے لیے کہنا ہے اور وزیر اعظم نے خود پہل کر کے ایک مثال قائم کی ہے تاکہ نجی شعبہ بھی اس پر عمل پیرا ہو۔مزمل نے کہا جیسے ہی حکومت کے پاس مالی طور پر گنجائش پیدا ہوئی وزیر خزانہ نے اس الاؤنس کا اعلان کر دیا ہے تاکہ فرق کو ختم کرنے کے ساتھ ملازمین کو ریلیف بھی فراہم کیا جا سکے۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حکومت کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ اس نے مالی گنجائش نکلنے پر یہ ایڈہاک ریلیف فراہم کیا ہے۔انھوں نے کہا حکومت کا مالی خسارہ تو 33 فیصد بڑھ چکا ہے اور اس مالی سال میں اب تک یہ خسارہ 550 ارب تک پہنچ چکا ہے۔(بشکریہ : بی بی سی)