کیا پاکستان میں ڈالر کی قیمت 200 روپے تک جا سکتی ہے ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی تنویر ملک کی بی بی سی کے لیے ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔پاکستان میں کرنسی کے تبادلے کے شعبے میں کام کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں پر حکومت کی جانب سے ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے اور اس کے تحت نوٹسز کے اجرا پر رد عمل میں ایکسچینج کمپنیوں کا کہنا ہے
کہ اس اقدام سے ملک میں ڈالر کی قیمت 200 روپے کی حد سے تجاوز کر سکتی ہے تاہم معاشی ماہرین اور حکومت ان خدشات کو مسترد کرتے ہیں۔ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کی قیمت بڑھنے کے امکانات کا اظہار اس وقت کیا جا رہا ہے جب ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی پہلے ہی کافی مہینوں سے دباؤ کا شکار ہے اور اس کی قیمت میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔اس وقت ایک امریکی ڈالر کی پاکستانی روپے میں قیمت 175 اور 176 کے درمیان ہے۔مئی 2021 میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 152 روپے تھی تاہم ملک کے بڑھتے درآمدی بل اور افغانستان کو ڈالر کی مبینہ سمگلنگ کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور گذشتہ سال کے آخری مہینے تک ڈالر کی انٹر بینک میں قیمت 178 روپے سے بھی تجاوز کر گئی تھی جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی شرح بھی بلند سطح پر رہی۔ملک کے بڑھتے درآمدی بل کی وجہ سے جہاں تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا تو اس نے جاری کھاتوں کے خسارے کو بھی بڑھایا اور ملک کے بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بھی بگاڑ پیدا کیا۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معطل شدہ پروگرام کی بحالی اور ایک ارب ڈالر کی قسط وصولی کے لیے حکومت نے حال ہی میں منی بجٹ بھی پاس کروایا تھا تاکہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر وصول کرنے کے بعد دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کو فنڈنگ جاری ہو سکے جو ملک کی بیرونی
ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے گی اور ایکسچینج ریٹ پر اس کا مثبت اثر پڑے گا۔حکومت کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر ودہولڈنگ ٹیکس نافذ کیا گیا ہے جس کی شرح 16 فیصد ہو گی۔ وزیر خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے بتایا کہ یہ نوٹسز 2014 سے 2016 کے درمیان جب ٹیکس نافذ تھا، اس پر جاری کیے گئے ہیں۔ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ حکومت کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر جو 16 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لگایا گیا ہے یہ اصل میں سنہ 2014 میں نافذ کیا گیا تھا تاہم سنہ 2016 میں اس ٹیکس کو واپس لے لیا گیا تھا۔اُنھوں نے کہا کہ پچھلے پانچ سال سے یہ ٹیکس نافذ العمل نہیں تھا مگر اب حکومت کی جانب سے اچانک اس کو لاگو کر دیا گیا ہے اور اس کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں جن میں ایک ارب روپے تک اس ٹیکس کے تحت حکومت کو جمع کروانے کا کہا گیا پے۔اُنھوں نے کہا کہ اس ٹیکس کے نفاذ اور اس کے تحت نوٹسز پر ایکسچینج کمپنیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ اچانک سے حکومت نے اس ٹیکس کو نافذ کر دیا ہے جو سنہ 2016 میں واپس لے لیا گیا تھا۔ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ اس کا اطلاق ایکسچینج کمپنیوں پر ہو گا اور انٹربینک میں ڈالر کی تجارت پر اس کا کوئی اطلاق نہیں ہو گا۔ظفر پراچہ نے
کہا کہ اس اقدام سے ڈالر کی قانونی مارکیٹ کی حوصلہ شکنی ہو گی اور گرے مارکیٹ یعنی غیر قانونی ذرائع یعنی حوالہ و ہنڈی کے ذریعے ڈالر کی تجارت کی حوصلہ افزائی ہو گی۔مگر مالیاتی امور کے ماہر اور عارف حبیب لمٹیڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اس ٹیکس کا نفاذ اوپن مارکیٹ میں ہونے والے سودوں پر ہو گا اور اس کا اطلاق انٹر بینک مارکیٹ پر نہیں ہوتا
جو پاکستان میں شرح مبادلہ کا تعین کرتی ہے۔اُنھوں نے کہا کہ ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے یہ تخمینہ لگایا گیا ہے، اس کے تحت 180 روپے کا ڈالر اگر اوپن مارکیٹ میں ہے اور 16 فیصد کے حساب سے وہ صارفین سے ٹیکس وصول کریں گے تو اس کا مجموعی اثر 200 روپے تک پہنچ جاتا ہے۔طاہر عباس نے اس امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 90 سے 95 فیصد کام انٹر بینک میں ہوتا ہے اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ڈالر اتنی بلند سطح پر چلا جائے۔اُنھوں نے کہا کہ ایف بی آر چاہتا ہے کہ پوائنٹ آف سیل کے ذریعے جو بھی ٹرانزیکشن ہے وہ ریکارڈ کا حصہ بنے اور اس پر ٹیکس دیا جائے تاہم ڈالر کی قیمت اس وجہ سے نہیں بڑھ سکتی کیونکہ اوپن مارکیٹ میں بہت تھوڑا کام ہوتا ہے اور ڈالر کی 90 فیصد سے زائد ضرورت انٹر بینک پوری کرتا ہے۔اسی طرح وزیرِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے کہا کہ ملک میں ڈالر اور روپے کی درمیانی شرح مبادلہ کا
انحصار طلب و رسد کے قانون پر ہے۔اُنھوں نے کہا کہ اوپن مارکیٹ پر اس ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہے جس کا حصہ انٹربینک کے مقابلے میں بہت کم ہے اس لیے اس اقدام سے ڈالر کے ریٹ میں کسی اضافے کو کوئی امکان نہیں۔ایکسچینج کمپنیوں کی تنظیم کے سربراہ ملک بوستان نے کہا کہ جب ٹیکس لگایا جائے گا تو اس کا بوجھ صارفین کو منتقل ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ 16 فیصد اضافی ٹیکس جب صارفین کو منتقل ہو گا تو اس کا تقریباً 20 روپے اضافی بوجھ صارفین کو ادا کرنا پڑے گا یعنی اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 180 روپے کے لگ بھگ ہے تو ٹیکس کے اضافی 20 روپے سے ایک ڈالر 200 روپے میں پڑے گا۔
وزیر خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ ایکسچینج کمپنیز چاہتی ہیں کہ حکومت ٹیکس واپس لے، نہیں تو ہم یہ کر دیں گے۔ اُنھوں نے کہا ایکسچینج کا رویہ ’منافع خور گروہ کے سٹائل جیسا ہے کہ مطالبات پورے نہ ہونے پر انتہائی اقدام کی وارننگ دیتے ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ اگر ایکسچینج کمپنیاں اپنے کاروبار بند کرتی ہیں تو اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ ان کی جگہ دوسری کمپنیز آ جائیں گی۔ایکسچینج کمپنی کے مالک اور کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ ایسا رد عمل نہیں دینا چاہیے تاہم ان کے مطابق اس سلسلے میں کچھ غلط فہمی نے یہ صورتحال پیدا کی ہے۔اسی طرح ملک بوستان کا بھی کہنا ہے کہ وہ حکومت کو سمجھا رہے ہیں کہ یہ ٹیکس اُن پر نہیں لگتا کیونکہ یہ خدمات پر ہوتا ہے اور وہ صرف ڈالر کی خریداری و فروخت کر رہے ہیں۔