آخری دنوں میں طبعیت اتنی بگڑی کہ ہاتھ بھی نہیں اٹھ سکتا تھا۔۔ بھائی کے علاج کے لیے کروڑوں روپے جمع کرنے والی بہن جو اُسی بیماری سے انتقال کرگئی
زندگی میں جہاں خوشیاں ہوتی ہیں وہیں غم بھی پایا جاتا ہے۔ زندگی کچھ دن کی مہمان ہے کیونکہ موت اصل حقیقت ہے۔ انسان ساری زندگی محنت کرنا ،پیسے کماتا ہے اور آخر میں اس کا سب یہیں رہ جاتا ہے۔ ایک ایسی ہی کہانی آپ کو سنانے جا رہے ہیں جس میں ایک بہن جس نے اپنے بھائی کےعلاج کے لیے پیسے جمع کیے مگر جو بیماری اس کے بھائی کو تھی بدقسمتی سے وہ اسی بیماری سے دنیا سے چلی گئی۔
رواں ہفتے بھارت سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان سوشل میڈیا اسٹار کی موت ہوئی ہے جنھوں نے ویڈیو میں مدد کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کے علاج کے لیے کروڑوں روپے اکھٹے کیے تھے۔
16 سالہ عفرا رفیق پٹھوں کی نایاب بیماری، اسپائنل مسکولر اٹروفی یا ایس ایم اے، کا شکار تھیں۔ یہ ایک ایسی موذی بیماری ہے جس میں پٹھے کمزور پڑ جاتے ہیں، حرکت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس میں سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔
اُن کی بیماری میں پیچیدگی کے بعد پیر کو بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ایک ہسپتال میں اُن کی موت ہوئی۔ ان کے والد پی کے رفیق نے بی بی سی اردو کو انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے بیٹی (عفرا) نے زندگی سے ہر ممکن خوشی حاصل کی۔
عفرا کے خاندان اور ہمسائیوں کے مطابق وہ ایک باصلاحیت لڑکی تھیں جو بے پناہ درد کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی گیت گانا اور پڑھنا پسند کرتی تھیں۔ بیماری لگنے کے بعد ساری توجہ بیٹی پر مرکوز کر دی تھی۔
ان کو چار سال کی عمر میں ایس ایم اے بیماری کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ صرف ہسپتال یا سکول جانے کے لیے گھر سے نکلتی تھیں۔ عفرا کے والد رفیق بتاتے ہیں کہ اس سب کے بعد جیسے ان کا گھر ٹوٹ کر رہ گیا ہو کیونکہ ہم جانتے تھے کہ ہماری بیٹی کس تکلیف سے گزر رہی تھی۔
عفرا کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کی خواہش تھی کہ ان کے بھائی محمد کو درست علاج ملے۔
اس کے لیے ان کو زولجینسما نامی ایک نئی دوائی تک رسائی درکار تھی جس کی منظوری 2019 میں امریکی ادارے ایف ڈی اے نے دی تھی۔ اس دوائی کے ذریعے ایس ایم اے بیماری سے متاثرہ بچوں کا جینیاتی علاج ممکن تھا اور دو سال سے کم عمر بچوں کو ایک ہی بار دی جاتی ہے۔
اس وقت تک محمد کی عمر ڈیڑھ سال ہو چکی تھی اور ان کے خاندان کے پاس بہت کم وقت بچا تھا۔ لیکن رفیق بتاتے ہیں کہ اس کی قیمت ہماری سوچ سے زیادہ تھی۔
زولجینسما کی ایک ڈوز کی قیمت 180 ملین انڈین روپے یا 22 لاکھ امریکی ڈالر ہے جس کو امریکہ سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔
اس دوائی کے استعمال کی منظوری کے بعد سے بہت سے انڈین شہریوں نے کراؤڈ فنڈنگ کا سہارا لیا۔ ان میں سے چند کامیاب ہوئے جن کی اپیل سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ انڈیا کی وزارت صحت نے ایس ایم اے جیسی نایاب بیماریوں کے لیے رضاکارانہ طور پر کراؤڈ فنڈنگ، جس میں عوام سے پیسوں کی اپیل کی جاتی ہے، کی اجازت دے رکھی ہے۔
عفرا کے خاندان نے بھی اس راستے کو اپنایا۔ ان کے گاؤں کی کونسل نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تاکہ دوائی کے لیے پیسہ اکھٹا کیا جا سکے۔ لیکن وہ چند ہزار روپے ہی اکھٹے کر پائے۔
یہی وہ وقت تھا جب عفرا نے اپنے کزن سے ایک ویڈیو ریکارڈنگ کروانے کا کہا۔ اس میں انھوں نے اپیل کی کہ میں نہیں چاہتی کہ میرا بھائی بھی اسی تکلیف سے گزرے جس درد سے میں دو چار ہوں۔یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائرل ہوئی جس کے بعد اس کی میڈیا کوریج بھی ہوئی۔ ان کے والد کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو سے پہلے عفرا گھر سے زیادہ باہر نہیں نکلتی تھیں۔
اپنی زندگی میں عفرا نے یوٹیوب چینل بھی شروع کیا تھا جس میں وہ صارفین کو اپنے بھائی کے علاج سے متعلق آگاہ کرتی تھیں۔ ایک سال سے کم عرصے میں ان کے چینل کو 259000 لوگوں نے سبسکرائب کیا تھا۔ ان ویڈیوز میں ان کو ہسپتال جاتے، بھائی کے ساتھ وقت بتاتے اور سالگرہ اور دیگر تہوار مناتے دیکھا جا سکتا ہے۔
پھر ہوا کچھ یوں کہ عفرا کی طبیعت غیر معمولی طور پر خراب ہوتی چلی گئی۔ والدین کے مطابق وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ان کے لیے ہاتھ اٹھانا بھی مشکل ہوگیا تھا اور وہ درد سے دانت پیستی تھیں۔