in

چترال میں امریکی شہری نے کتنے ڈالر کے عوض مارخور کا شکار کیا؟

چترال میں امریکی شہری نے کتنے ڈالر کے عوض مارخور کا شکار کیا؟

چترال: (ویب ڈیسک) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر چترال میں ایک امریکی شہری نے پونے تین کروڑ روپے (ایک لاکھ 60 ہزار ڈٓالر) کے عوض پاکستان کے قومی جانور مارخور کا شکار کیا ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق جمعے کو لوئر چترال کی تھوشی مارخور کنزرونسی میں امریکی شہری برائن کنسل ہارلن نے مارخور کا شکار کیا۔

ضلعی وائلڈ لائف محکمے کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ کشمیر مارخور کے شکار کی یہ ٹرافی گزشتہ سال نومبر میں ہونے والی نیلامی میں امریکی شہری نے حاصل کی تھی۔ وائلڈ لائف محکمے کے افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ٹرافی ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر میں نیلام کی گئی تھی جو کہ اب تک کی سب سے بڑی رقم ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ یہ 2021 کا تیسرا شکار (ٹرافی ہنٹ) ہے۔ ان کے مطابق کشمیر مارخور کی عمر نو سال اور اس کے سینگوں کا سائز 45 انچ تھا۔ خيبر پختونخوا کے علاقے چترال، کوہستان، گلگت بلتستان، پاکستان کے زيرِ انتظام کشمير اور صوبہ بلوچستان ميں مارخور کی کئی اقسام پائی جاتی ہيں۔ پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ سکیم کے تحت ہر سال مارخور کے شکار کے لیے 12 لائسنسز جاری کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی چترال میں ایک امریکی شہری نے مارخور کا شکار کیا تھا۔ محکمہ تحفظ جنگلات کے مطابق یہ شکار 88 ہزار امریکی ڈالر کے عوض کیا گیا جبکہ 2020 میں بھی ایک شکاری نے نر مارخور کے شکار کے لیے ایک لاکھ 50 ہزار امریکی ڈالر کی رقم ادا کی تھی۔ محکمہ جنگلی حیات کے سابق ضلعی افسر امتیاز حسین کا کہنا ہے کہ شکار کے بعد محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار شکار کیے گئے مارخور کے سینگ کی پیمائش کرتے ہیں جسے شکاری کے حوالے کیا جاتا ہے۔ شکاری سینگ کو بطور ٹرافی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ان کے مطابق عموماً شکاریوں کی دلچسپی مارخور کے گوشت میں نہیں ہوتی۔محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات کشمیر مارخور کے غیر قانونی شکار کو روکنے اور ان کی نسل کو محفوظ بنانے کے لیے کی گئی تھی۔ وائلڈ لائف کنزرونسی کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ بنیادی طور پر ٹرافی ہنٹنگ کا مقصد لوکل کمیونٹی کی جانب سے مارخور کے غیر قانونی شکار کو روکنا ہے۔ ان کے مطابق پہلے مقامی کمیونٹی مارخور کا غیر قانونی طریقے سے بے دریغ شکار کرتی تھی جس کی بنیادی وجہ غربت اور آگاہی کی کمی تھی۔ تاہم کنزرویشن اور ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات کے بعد غیر قانونی شکار میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرافی کی رقم کا 80 فیصد مقامی کمیونٹی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ مقامی تنظیم کے ذریعے یہ رقم صحت، صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

مذکورہ افسر نے ٹرافی ہنٹ کی ایک اور وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ مارخور کی جو نسل بوڑھی ہو جاتی ہے تو ان کی بریڈنگ کے نتیجے میں جو جانور پیدا ہوتے ہیں وہ جینیاتی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔’اس لیے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹرافی ہنٹ میں بڑی عمر کے جانوروں کا شکار کرایا جائے تاکہ بوڑھے جانور ختم بھی ہوں اور ان کے بدلے میں مقامی کمیونٹی کو سہولیات کی فراہمی کے لیے رقم بھی میسر ہو۔‘ انہوں نے بتایا کہ چونکہ ٹرافی ہنٹنگ کی نیلامی ڈالروں میں ہوتی ہے تو یہ ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا سبب بھی بنتا ہے۔ محکمہ جنگلات کے سابق ضلعی افسر امتیاز حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات 1999 سے ہوئی۔ 1997 میں کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اِن انڈینجرڈ سپیشیز سے متعلق زمبابوے میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کو مارخور کے غیرقانونی شکار کو روکنے کے لیے ہنٹنگ ٹرافی دینے کی اجازت دی گئی۔ امتیاز حسین نے بتایا کہ ابتدا میں پاکستان کو سال میں چھ ٹرافیوں کی اجازت دی گئی جسے بعد میں بڑھا کر 12 کر دیا گیا۔ چترال میں جانوروں کے لیے تحفظ کے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کی گئیں جو تھوشی شاشہ کنزرونسی اور گہریت گولین کنزرونسی پر مشتمل ہیں۔ جس کے ساتھ ہی ’کمیونٹی مینجڈ کنزرویشن‘ کا پروگرام شروع کیا گیا۔ ان کے مطابق مارخور کے 12 ٹرافی پرمٹس میں سے چار خیبر پختونخوا، چار گلگت بلتستان اور چار بلوچستان میں دیے جاتے ہیں۔ امتیاز حسین نے کہا کہ ’ٹرافی ہنٹنگ اور کمیونٹی منیجڈ کنزرویشن کی بدولت چترال میں کشمیر مارخور کی تعداد جو 1999 میں چند سو تھی اب ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔‘ وائلڈ لائف کے ایک حاضر سروس افسر کے مطابق کشمیر مارخور کی تعداد جو چند سو رہ گئی تھی کہ اب بڑھ کر چار ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ ’اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کنزرویشن اور ٹرافی ہنٹنگ کے کتنے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔‘ ٹرافی ہنٹنگ کی وجہ سے مقامی لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے اس لیے اب مارخور کی سب سے زیادہ حفاظت مقامی لوگ ہی کرتے ہیں۔‘

ویلیج کنزرویشن کمیٹی پرسن کے صدر اور سپر کنزرویشن کمیٹی تھوشی شاشہ کنزونسی کے چیف ریپریزنٹیٹیو مظفر احمد نے بھی امتیاز حسین کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جب 1999 میں چترال میں دو کنزرونسی بنا کر کنزرویشن کا کام وی سی سیز (ویلیج کنزرویشن کمیٹیوں) کے سپرد کیا گیا تو چترال میں مارخور کی کل تعداد 297 تھی اور اب 2019 کے سروے کے مطابق مارخور کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی کمیونٹی اس نظام میں سب سے بڑی سٹیک ہولڈر بن گئی ہے کیونکہ ٹرافی کی رقم کا 80 فیصد ان پر خرچ کیا جاتا ہے۔ مظفر احمد نے نجی ٹی وی ویب سائٹ کو بتایا کہ کمیونٹی ٹرافی کی رقم کو کمیونٹی کے اجتماعی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرتی ہے۔’یہ رقم بنیادی طور پر پینے کے صاف پانی کی فراہمی، مقامی سطح پر پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں کی تعمیر، جن کمیونٹی بیسڈ سکولوں میں عمارت یا دیگر سہولیات نہیں وہ ان کی فراہمی اور ایریگیشن چینل کی تعمیر اور مرمت پر خرچ کی جاتی ہے۔‘ مظفر نے بتایا کہ ’کمیونٹی کے ان بچوں میں بہت صلاحیت ہے لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے، اس رقم کو سکالرشپس کی فراہمی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘ امتیاز حسین کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کے پرمٹ اوپن نیلامی کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔ یہ نیلامی ہرسال نومبر کے مہینے میں کی جاتی ہے۔ چونکہ ٹرافی کی نیلامی ڈالر میں ہوتی ہے اس لیے عموماً اس (مارخور) کے پرمٹ کو غیر ملکی شکاری ہی حاصل کرتے ہیں۔ امتیاز حسین کے مطابق نیلامی میں ٹرافی ہنٹ آؤٹفٹرز حصہ لیتے ہیں جو کہ ایک طرح سے ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ یہ غیرملکی شکاریوں کو مارخور کے شکار کے لیے خدمات فراہم کرتے ہیں۔ غیر ملکی شکاری ان آؤٹ فٹرز کی مدد سے شکار کے لیے ٹرافی کی نیلامی میں حصہ لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ بولی دینے والے کو ٹرافی دی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اگر شکاری پہلے سال ٹرافی ہنٹنگ کسی بھی وجہ سے نہیں کر سکے تو وہ اگلے سال اسی پرمٹ پر شکار کر سکتا ہے۔ لیکن دو سال کے بعد پرمٹ ایکسپائر ہوجاتا ہے۔ امتیاز حسین نے بتایا کہ اگر ٹرافی ہنٹنگ کے دوران شکاری کا فائر مس ہو گیا اور مارخور بھاگ گیا تو بھی پرمٹ قابل استعمال رہتا ہے۔’ لیکن اگر شکاری کی فائرنگ سے مارخور زخمی ہو گیا مگر ہاتھ نہیں آیا تو بھی یہ شکار تصور ہوگا اور شکاری کو مزید شکار کی اجازت نہیں ہوگی۔‘ ان کے مطابق ادارے اور شکاری کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑے مارخور کا شکار کیا جائے۔ امتیاز حسین کے مطابق قانون کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کا سیزن 15 نومبر سے اپریل تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد چونکہ بریڈنگ پیریڈ شروع ہوتا ہے اس لیے شکار کی اجازت نہیں ہوتی۔

ویلیج کنزرویشن کمیٹی پرسن کے صدر اور سپر کنزرویشن کمیٹی تھوشی شاشہ کنزونسی کے چیف ریپریزنٹیٹیو مظفر احمد نے بھی امتیاز حسین کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جب 1999 میں چترال میں دو کنزرونسی بنا کر کنزرویشن کا کام وی سی سیز (ویلیج کنزرویشن کمیٹیوں) کے سپرد کیا گیا تو چترال میں مارخور کی کل تعداد 297 تھی اور اب 2019 کے سروے کے مطابق مارخور کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی کمیونٹی اس نظام میں سب سے بڑی سٹیک ہولڈر بن گئی ہے کیونکہ ٹرافی کی رقم کا 80 فیصد ان پر خرچ کیا جاتا ہے۔ مظفر احمد نے نجی ٹی وی ویب سائٹ کو بتایا کہ کمیونٹی ٹرافی کی رقم کو کمیونٹی کے اجتماعی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرتی ہے۔’یہ رقم بنیادی طور پر پینے کے صاف پانی کی فراہمی، مقامی سطح پر پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں کی تعمیر، جن کمیونٹی بیسڈ سکولوں میں عمارت یا دیگر سہولیات نہیں وہ ان کی فراہمی اور ایریگیشن چینل کی تعمیر اور مرمت پر خرچ کی جاتی ہے۔‘

مظفر نے بتایا کہ ’کمیونٹی کے ان بچوں میں بہت صلاحیت ہے لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے، اس رقم کو سکالرشپس کی فراہمی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘ امتیاز حسین کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کے پرمٹ اوپن نیلامی کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔ یہ نیلامی ہرسال نومبر کے مہینے میں کی جاتی ہے۔ چونکہ ٹرافی کی نیلامی ڈالر میں ہوتی ہے اس لیے عموماً اس (مارخور) کے پرمٹ کو غیر ملکی شکاری ہی حاصل کرتے ہیں۔ امتیاز حسین کے مطابق نیلامی میں ٹرافی ہنٹ آؤٹفٹرز حصہ لیتے ہیں جو کہ ایک طرح سے ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ یہ غیرملکی شکاریوں کو مارخور کے شکار کے لیے خدمات فراہم کرتے ہیں۔ غیر ملکی شکاری ان آؤٹ فٹرز کی مدد سے شکار کے لیے ٹرافی کی نیلامی میں حصہ لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ بولی دینے والے کو ٹرافی دی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اگر شکاری پہلے سال ٹرافی ہنٹنگ کسی بھی وجہ سے نہیں کر سکے تو وہ اگلے سال اسی پرمٹ پر شکار کر سکتا ہے۔

لیکن دو سال کے بعد پرمٹ ایکسپائر ہوجاتا ہے۔ امتیاز حسین نے بتایا کہ اگر ٹرافی ہنٹنگ کے دوران شکاری کا فائر مس ہو گیا اور مارخور بھاگ گیا تو بھی پرمٹ قابل استعمال رہتا ہے۔’ لیکن اگر شکاری کی فائرنگ سے مارخور زخمی ہو گیا مگر ہاتھ نہیں آیا تو بھی یہ شکار تصور ہوگا اور شکاری کو مزید شکار کی اجازت نہیں ہوگی۔‘ ان کے مطابق ادارے اور شکاری کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑے مارخور کا شکار کیا جائے۔ امتیاز حسین کے مطابق قانون کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کا سیزن 15 نومبر سے اپریل تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد چونکہ بریڈنگ پیریڈ شروع ہوتا ہے اس لیے شکار کی اجازت نہیں ہوتی۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں مریض کو گھر میں کس چیز سے بچایا جا سکتا ہے ؟ وہ بات جو بہت کم لوگ جانتے ہیں

2022 کے آغاز پر معروف موبائل کمپنی کا کونسا فون بند ہوجائیگا؟