in

خواتین کی نوکری پر ہمارا کوئی مسئلہ نہیں ،حجاب کی بات کی ہے، طالبان ترجمان کا انٹرویو

اسلام آباد (این این آئی)افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور ترقی میں تعاون کا خیرمقدم کرنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا کسی ملک میں بیرونی ایجنڈا نہیں ہے اور ہم اپنا انقلاب کسی دوسرے ملک میں برآمد نہیں کریں گے۔

ایک انٹرویو میں ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا کہ ‘ہم نے جو امن معاہدہ کیا ہے اس کی رو سے تمام افواج افغانستان سے نکلیں گی اور کابل کے سیاسی فریقین سے امن مذاکرات ہوں گے اور اس کیلئے دوحہ میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہو رہا ہے’۔ انہوں نے کہا کہ‘جو اضلاع ہمارے قبضے میں آئے ہیں وہ لڑائی کے ذریعے نہیں آئے بلکہ وہاں موجود کابل حکومت کی فورسز خود رضاکارانہ طور ہمارے ساتھ مل گئی ہیں، ورنہ یہ ممکن نہیں ہے ہم ایک دو مہینوں میں سارے افغانستان کے اضلاع کو قبضے میں لے لیں’۔ انہوں نے کہا کہ ‘ایسا 20 سال میں ممکن نہیں تھا اور اس وقت بھی ممکن نہیں ہے لیکن کابل انتظامیہ اور اس کے حامی ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ہم عسکری قبضے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہیں۔ افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ‘کابل انتظامیہ کی جو بھی فورسز ہم سے رابطہ کرتی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنے اسلحے کے ساتھ ہمارے پاس آئیں، تو ظاہر ہے ہم خوش آمدید کہتے ہیں، اگر ہماری فورسز کابل انتظامیہ کے پاس جاتیں تو وہ بھی ایسا ہی کرتے۔ انہوں نے کہا کہ لڑائی اور جانی نقصان ابھی کم ہے لیکن ہماری فتوحات اور ہمارے قبضے میں آنے والے اضلاع کی تعداد زیادہ ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آئندہ جو بھی اسلامی حکومت بنے گی اس کے لیے مسلح افواج اور پولیس کی ضرورت ہے اور اس کو ہم برقرار رکھیں گے۔

حکومت بنانے کی صورت میں نظام کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف پہلے ہمارے مجاہدین لڑے اور کئی ہمارے صفوں میں ہیں، اس کا وقت بنیادی مقصد اسلامی نظام قائم کرنا تھا۔انہوں نے کہا کہ آئندہ حکومت میں ہماری توجہ افغانستان میں ترقی پر ہو گی، دوسرے ممالک کی سرمایہ اور تعاون کو خوش آمدید کہیں گے، ہم چاہتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہو اور تعلقات ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں ہے،

اس حوالے سے کوئی تشویش نہ ہو کیونکہ کسی ملک سے بھی ہمارا کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں ہے کہ ہم اپنے انقلاب کو دوسرے ملک برآمد کریں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سارے ممالک کے ساتھ تعاون رکھیں اور افغانستان کی تعمیر نو پر توجہ مرکوز رکھیں۔مقامی قبائل کی جانب سے مزاحمت اور امن کے قیام کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں ایسے قبائل کے بارے میں نہیں سنا ہے شاید ہمارے مخالفین نے ایسا شوشا چھوڑا ہو،

سارے قبائلی اور عمائدین ہمارے ساتھ تھے اور ساتھ ہیں، اسی لیے ہم نے 20 سال تک ایک سپر پاور اور اس کے ساتھ 54 ممالک کے خلاف مزاحمت کی۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے اپنے لوگ ساتھ نہ ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ مزاحمت کی جاتی اور اس کی ٹیکنالوجی اور اسلحے کے مقابلے میں کیسے ہماری مزاحمت کامیاب ہوتی۔ترجمان نے کہا کہ ابھی ہم قبضے اور کابل انتظامیہ کے تسلط کے خلاف لڑ رہے تھے اور ہم نے ننگر ہار، کنڑ ، فریاب،

زابل اور دوسرے علاقوں سے داعش کو ختم کیا ہے، اب افغانستان میں کسی بھی صوبے میں داعش نہیں ہے اور جو تھے وہ کابل انتظامیہ کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں، ان کے جنگجو یا قیادت، دونوں ہی کابل انتظامیہ کے پاس ہے۔داعش کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ ‘کابل انتظامیہ کی جیلوں میں یا پھر گیسٹ ہاؤسز میں ہیں، جب افغانستان میں لڑائی بھی نہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ داعش دوبارہ افغانستان میں آئے اور اپنے اثر و نفوذ کو قائم کرے تو ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘شاید دوسرے ممالک کا ایسا پروگرام ہوتو انشااللہ ہم اس کو بھی ناکام بنا دیں گے اور افغانستان میں داعش یا دوسرے گروپس کو جگہ نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان ایک فورس ہے، سارے بارڈر ہمارے قبضے میں ہیں اور فعال ہیں، ہم نے 193 اضلاع قبضے میں لیے ہیں، اس میں فعال ہیں، 65 اضلاع پہلے ہی ہمارے پاس تھے اور اس وقت افغانستان کے تقریباً 260 اضلاع ہمارے قبضے میں ہیں اور ان سب میں ایک حکم ہمارے سپریم لیڈر کا چل رہا ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی واضح ہے کہ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہو۔انہوں نے کہا کہ جو بھی دھڑا، گروپ یا انفرادی شہری ہو اس کے بارے میں ہماری پالیسی واضح ہے، ہم نہیں چاہتے ہیں کہ جب ایک افغان اسلامی حکومت بنائے پھر دوسرے دھڑوں کو بھی جگہ دے دیں کہ افغانستان دوبارہ غیر مستحکم ہوجائے تو یہ ہمارے مفاد میں نہیں ہے اور ہم یہ چاہتے بھی نہیں۔طالبان ترجمان نے کہا کہ ایسا ممکن بھی نہیں ہے کہ ایک طرف ہم چاہتے ہیں سارے ممالک سے تعلقات رکھیں اور کسی کو افغانستان کی سرزمین میں ایسا کرنے کی اجازت دیں، اس لیے کسی کو خدشے کی ضرورت نہیں ہے۔

بھارتی عہدیداروں سے پالیسی اور ملاقات کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘ملاقات نہیں ہوئی، بھارت اسلحہ کابل انتظامیہ کو فراہم کر رہا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں جو ہمارے عوام کے دشمن ہیں وہ اس سے باز رہیں، اس مسئلے میں وہ غیر جانب دار رہے، یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مستقبل میں بھارت کے ساتھ کیسے تعلقات رکھیں گے وہ جو بھی اسلامی حکومت آئے گی وہ اس کی خارجہ پالیسی پر منحصر ہے کہ افغانستان کی ترقی اور امن کے لیے دوسرے ممالک کس سطح پر روابط رکھیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری کسی ملک کے ساتھ لڑائی نہیں ہے، ہماری لڑائی ہمارے ملک پر ہونے والے قبضے کیخلاف تھی، پہلے بھی ایسے قبضے کیخلاف اور اب سپر پاور امریکا آیا اور ہمارے ملک پر قبضہ کیا اور ہماری آزاد اور معمول کی زندگی چھین لی.

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

عید کی چھٹیوں میں اضافہ کردیا گیا!ملازمین خوشی سے نہال

دنیا کا نایاب ترین پاسپورٹ جو صرف 3 افراد کے پاس ہے وہ لوگ کون ہیں جانیں