پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر سارہ نے اپنی آپ بیتی بتائی کہ انہوں نے کالج میں کونسا روپ اپنا کر تعلیم حاصل کی؟ ڈاکٹر نے بتایا کہ انہیں سب سے گھٹیا ڈاکٹر عامر لیاقت لگتے ہیں کیونکہ انہوں نے۔۔
تیسری صنف، خواجہ سرا سے ڈاکٹر تک سفر ، پاکستان بھی بازی لے گیا۔
لاہور (اعتماد ٹی وی) خواجہ سرا کا نام آتے ہی عموماً ناچ گانے کا خیال آتا ہے ۔ ہر کسی کے ذہن میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ خواجہ سرا یا تیسری صنف کم درجے کی صنف ہے جس کا مرد و زن کے اس معاشرے میں کسی سے نہیں کیا جا سکتا ۔
اس کمیونٹی کو بہت سے مسائل کا سامنا ہوتا اور اس کے لئے بہت ہی کسی نے آواز بلند کی یا کسی این جی او نے ان کو بحثیت انسان ہی انسانی حقوق دلا نے کی کوشش کی۔
سال 2021 میں بھارت نے ایک ٹرانس جینڈر کو سیاست میں جگہ دی تو کسی کو نیوز میزبان کے طور پر نوکری دی گئی تا کہ یہ لوگ ناچ گانے سے ہٹ کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو ں اور معاشرے کا مقابلہ کریں ۔
بھارت کے بعد اب اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہو چکا ہے۔ پاکستان کے ایک ٹرانس جینڈر نے ایم بی بی ایس کی ڈگر ی حاصل کر کے دنیا بھر پاکستا ن کے نام کو روشن کیا ہے۔
پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر سارہ گِل خان نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور جی پی ایم سی میں اپنی ہاؤس جاب مکمل کر رہی ہیں ۔
ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر سارہ گِل نے بتایا کہ اُ نکو اس سفر میں کامیابی دلانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اُن کو حقارت اور تمسخر بھر ی نظروں سے دیکھا ، اُن پر فقرے کَسے ۔
سکول کے تعلیمی دور سے لے کر کالج تک ہم جماعتی صرف اس لئے بات کرتے تھے میں لائق طالبہ تھی اور نوٹس کے لئے وہ میرے پاس آتے تھے ورنہ ہماری کمیونٹی کو لوگ اچھوت سمجھتے ہیں ایک انسان سمجھ کر بھی دوستی تو دو ر کوئی ہمدردی تک نہیں کرتا ۔
خواجہ سراؤں کو لوگ کوئی گندی مخلوق سمجھتے ہیں۔ اسی چیز کو دیکھتے ہوئے میرے جیسے افراد ہمت ہار جاتے ہیں اور تعلیم میٹرک تک بھی مکمل نہیں کرتے۔ لیکن میں نے اسی سے ہمت حاصل کی اور دگنی محنت کی ۔
سارہ خان کی سکولنگ آرمی سکول میں ہوئی اور کالج میں انھوں نے لڑکوں کا حلیہ اختیار کیا اور میڈیکل کی مزید تعلیم جی ایم ڈی سی سے مکمل کی اور اب ہاؤس جاب کر رہی ہیں۔
کالج میں ان کو اچھے لوگ ملے جنھوں نے سارہ کو ایک ٹرانس جینڈر کی طرح کا سلوک نہیں کیا۔ سارہ خان اپنی کمیونٹی کے حق میں بہت زیادہ کام کررہی ہیں اس کام میں سندھ گورنمنٹ نے ان کی بہت امداد کی ۔
ڈاکٹر سارہ گل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وفاقی حکومت کو بھی سندھ کی طرح اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں اقدامات کرنے چاہیے انھوں نے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لئے ایک بِل بنا کر پاس کروانا ہے ان کے حقوق کا ۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر سارہ ایک این جی او چلا رہی ہیں جس کے ذریعے اپنی کمیونٹی کے افراد کی مدد کرتی ہیں۔
ڈاکٹر سارہ گِل نے بتایا کہ انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے پیسے جمع کئے اور یہ پیسے انھوں نے ناچ گانے کے پروگرام کر کے کئے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔
انھوں ان تھک محنت کی اور آج کامیابی حاصل کی ۔ ٹرانس جینڈر کے پاس دو ہی کام ہوتے ہیں یا تو وہ ناچ گانا کریں یا پھر بھیک مانگیں مجھے بھیک مانگنے سے بہتر یہ لگا۔
ڈاکٹر سارہ نے کہا کہ وہ پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ہیں جنہوں نے اپنی کمیونٹی پر ہورہی بے انصافی پر آواز بلند کی اور اس کے نتیجے میں اُن پر حملے بھی کروائے گئے لیکن انھوں نے ہار نہیں مانی۔ اسلامی سکالرز پر کئے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں مسلمان ہو ں اور تمام اسلامی اسکالرز کی عزت کرتی ہوں ۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین واحد ایسے اسلامی سکالر ہیں جن سے ہماری کمیونٹی نالاں ہے انھوں نے اپنے پروگرام میں دو ٹرانس جینڈرز کی بے عزتی کی تھی ۔
پروگرام میں مذاق کی حد مقرر ہونی چاہیے کسی کو اتنی آزادی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ سامنے والے کی عزت نفس مجروح کر دے ۔ ڈاکٹر سارہ نے کہا کہ میں عامر لیاقت کو ایک لاکھ کی پیش کش کرتی ہوں کیا وہ زنانہ مشہابت اختیار کر کے میرے ساتھ سنگنلز پر کھڑے ہو کر بھیک مانگ سکتے ہیں۔
کسی ٹرانس جینڈر کو یہ کہنا کہ میں تمہیں لاکھ روپیہ دیتا ہوں اپنے بال کاٹ لو۔ ایسی حرکات کسی مذہبی سکالر کو تو کیا عام آدمی کو بھی زیب نہیں دیتی ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ سڑک پر کھڑے ہو کر کسی کو گالی دیں۔
این جی او کے حوالے سے ڈاکٹر سارہ نے مختلف کمپنیوں کے مالکوں کو کہا ہے کہ وہ اپنے پروڈکٹ کی تشہیر کاری میں ٹرانس جینڈرز کو بھی شامل کریں کیونکہ جو اشیاء مرد و خواتین استعمال کرتی ہیں وہ ہم بھی کرتے ہیں اسطرح سے ہماری کمیونٹی کی بھلائی ہو گی۔