شہلا رضا تھائی لینڈ جانے والی وومن ہاکی ٹیم کی مینیجر مقرر، سوشل میڈیا صارفین کے سوالات
پاکستان کی خواتین کی ہاکی ٹیم آٹھ سے 15 اگست کے دوران تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں ہونے والے انڈور ایشیا کپ میں حصہ لے گی۔ مگر پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس ٹورنامنٹ سے زیادہ یہ بات زیادہ زیرِ بحث ہے کہ ٹیم کے ساتھ پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا بطور ’مینیجر‘ کیوں جا رہی ہیں؟
بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات قدرے عجیب تھی جب انھیں معلوم ہوا کہ شہلا رضا سندھ میں صوبائی وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان ویمنز ہاکی ٹیم کی مینیجر بھی ہیں۔
ادھر شہلا رضا نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ’مجھے جان کر خوشی ہوئی ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے مجھے مینیجر مقرر کیا ہے اور یہ اُن (ہاکی فیڈریشن) کی خواہش ہے کہ میں پاکستانی ٹیم کو بطور مینیجر لے کر جاؤں۔‘
اگرچہ بہت سے سوشل میڈیا صارفین اسے ایک ’سیاسی تقرری‘ قرار دے رہے ہیں تاہم پاکستان ہاکی فیڈریشن کے حکام اس تاثر کی نفی کر رہے ہیں۔ بی بی سی کو دیے مؤقف میں ہاکی فیڈریشن کا کہنا ہے کہ ’شہلا رضا پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کانگریس ممبر ہیں اور اس کھیل کے لیے ان کی خدمات موجود ہیں۔‘
شہلا رضا کے علاوہ ٹیم کے ساتھ کوچ نعیم احمد اور ویمنز کوچ راحت خان کی روانگی بھی متوقع ہے۔
’شہلا رضا ہاکی مینیجر بن گئیں، کیسے؟‘
ہاکی کے حلقوں میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ انڈور ہاکی میں پاکستانی خواتین ٹیم کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے باوجود ٹیم کو اس ٹورنامنٹ میں بھیجنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
اس ضمن میں صحافی عتیق الرحمن نے ٹویٹ کی کہ پاکستانی خواتین ہاکی ٹیم نے کبھی کلب میچ بھی نہیں کھیلا لیکن قومی ٹیم براہ راست انڈور ایشیا کپ کھیلنے جا رہی ہے۔ ’کروڑوں کے اخراجات کا ذمہ دار کون؟‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں انڈور ہاکی کی سہولت ہی موجود نہیں اور ان خواتین کھلاڑیوں کا کیمپ بھی آؤٹ ڈور لگایا گیا تھا جبکہ ان ڈور ہاکی کا سامان اور میدان آؤٹ ڈور سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔
ٹیم کے بارے میں یہ تنقید اپنی جگہ لیکن اس سے زیادہ تنقید سندھ کی صوبائی وزیر شہلا رضا کو اس ٹیم کا مینیجر بنائے جانے پر ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا پر اس بارے میں تبصرے جاری ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہونے والے ان تبصروں اور ٹویٹس میں یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ شہلا رضا کی تقرری کس بنیاد پر کی گئی ہے اور ان کا ہاکی سے براہ راست کیا تعلق ہے کہ انھیں مینیجر بنا دیا گیا ہے۔
سیدہ اُم حبیبہ نے لکھا کہ ’جہاں ہاکی ٹیم کی مینجمنٹ میں شہلا رضا جائیں گی، وہاں سپورٹس کی کیا حالت ہو گی۔ آپ کھلاڑی ہی میدان میں اُتریں تو کوئی بات بنے۔‘
اس کے جواب میں سیدہ عائشہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ چار سال سے شہلا رضا خواتین کی ہاکی ٹیم کے ساتھ منسلک ہیں۔ ’ہاکی کے فروغ میں ان کا بڑا کردار رہا ہے اور وہ واحد وزیر ہیں جو بُرے وقتوں میں ساتھ کھڑی رہیں۔‘
شہلا رضا کی تقرری کس بنیاد پر کی گئی؟
بی بی سی نے اس سلسلے میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے قائم مقام سیکریٹری حیدر حسین سے رابطہ کر کے ان کا مؤقف جاننا چاہا تو انھوں نے بتایا کہ شہلا رضا کی تقرری اُن کے سیکریٹری بننے سے قبل سابق سیکریٹری آصف باجوہ نے کی تھی۔ اس بارے میں 21 جولائی کو جاری کیا گیا وہ خط بھی موجود ہے جس میں کیمپ کی کھلاڑیوں کو ’کیمپ کمانڈنٹ‘ شہلا رضا کو رپورٹ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
حیدر حسین سے جب پوچھا گیا کہ کیا شہلا رضا کی تقرری سیاسی ہے؟ تو انھوں نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ شہلا رضا سنہ 2018 سے کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کی چیئر پرسن ہیں، اس کے علاوہ وہ سنہ 2020 سے سندھ ویمنز ہاکی کی جنرل منیجر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کانگریس ممبر ہیں۔‘
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے قائم مقام سیکریٹری کا کہنا ہے کہ شہلا رضا نے صوبہ سندھ خصوصاً اندرون شہروں میں خواتین ہاکی کے فروغ کے لیے بہت کام کیا ہے۔ ’اس کی وجہ سے خواتین کھلاڑیوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں غیر معمولی کمی آئی ہے۔‘
خود شہلا رضا نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ انھیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ’پاکستان ہاکی فیڈریشن نے مجھے مینیجر مقرر کیا ہے اور یہ ان کی خواہش ہے کہ میں اس ٹیم کو بطور مینیجر لے کر جاؤں۔‘
’پاکستان کی خواتین کی ٹیم دو، تین دن تک بینکاک جا رہی ہے۔ میں نے تو ابھی چھٹی کی درخواست بھی نہیں دی۔ 10 محرم سے پہلے اپنی جگہ نہیں چھوڑتی۔‘
ان کا دعویٰ تھا کہ ’اس سے پہلے بھی کئی سیاسی شخصیات، جو کہ مجھے نہیں معلوم جنھوں نے اتنا کام کیا ہو گا جتنا میں نے کیا ہے، وہ مینیجر وغیرہ رہ چکی ہیں۔ یہ ایسی کوئی انہونی بات نہیں۔‘
’جب مجھے جانا ہوگا حکومت سے چھٹی مانگ کر ویزا لے کر جاؤں گی۔ فضول میں کسی جگہ نہیں آئی ہوں۔