کامیابی کیسے حاصل کی، چار بچوں کی ماں کی ہمت و حوصلے کی عظیم داستان
ہمارے معاشرے میں عورت کو اپنی پیدائش سے لے کر مرنے تک ایک نازک پل صراط پر چلنا ہوتا ہے جہاں کبھی تو وہ اپنے باپ اور بھائی کی عزتوں کی امین ہوتی ہے تو شادی کے بعد شوہر سے اپنی ساری امیدیں وابستہ کر لیتی ہے ۔ بدقسمتی سے کچھ مرد عورت کی اس بات کو اس کی کمزوری سمجھتے ہیں اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کو کمزور سمجھتے ہیں مگر یہی عورت جب ایک بہن ایک بیٹی اور ایک بیوی سے ایک ماں کا روپ دھارتی ہے تو اس کی مثال ایک شیرنی جیسی ہو جاتی ہے جو کہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے اور اپنے بچوں کے لیۓ ایک مضبوط پناہ گاہ بن جاتی ہے- ایسی ہی ایک عورت کراچی کی حیا فیصل بھی ہیں جن کی کہانی سوشل میڈيا کی توسط سے ہم تک پہنچی ہے –
یہ کہانی ہے حیا فیصل کی جس کی شادی سترہ سال کی کم عمری میں والدین نے کر دی تھی کم عمری کے باوجود حیا کی ازدواجی زندگی پر سکون تھی اللہ نے اس کو ایک کے بعد ایک اولاد کی نعمت سے بھی نوازہ یہاں تک کہ اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہو گئیں –
اس کے شوہر پرائیویٹ نوکری کرتے تھے جب کہ حیا ایک گھریلوعورت کی طرح ان کی لائی ہوئی تنخواہ میں گھر چلاتی تھی اور بچوں کی پرورش کرتی تھیں ۔ ایک دن ان کے شوہر گھر آئے اور ان کو یہ خبر سنائی کہ ان کو نوکری سے جواب مل گیا ہے اگرچہ یہ خبر حیا کے لیے بہت بری خبر تھی مگر انہوں نے اس موقع پر اپنے شوہر کا حوصلہ بڑھایا اور ان کو امید دلائی کہ انشا اللہ جلد ہی ان کو کوئی اور نوکری مل جائے گی-
اسی دوران ان کے شوہر نے انہیں بتایا کہ ان کو نوکری کے سلسلے میں لاہور جانا ہے شوہر کی اس بات پر امید کے دامن سے بندھی حیا نے اپنے شوہر کے لاہور جانے کے لیے تیار کیا اور دعاؤں اور امیدوں کے سائے میں ان کو رخصت کر دیا ۔
یہ ان کی زندگی کا آخری دن تھا جب انہوں نے اپنے شوہر کو دیکھا شوہر کے روانہ ہونے کے بعد ہی سے حیا کا ان سے تعلق منقطع ہو گیا اور تمام تر کوششوں کے باوجود ان کے شوہر سے ان کا رابطہ نہ ہو سکا۔
دس ماہ تک اپنے شوہر کے انتظار میں حیا نے ہر طرح کی کوشش کی اس دوران گھر کے معاشی حالات بھی بد سے بدتر ہوتے گئے- حیا کے لیے اپنے چار بچوں کا پیٹ پالنا ایک مشکل عمل ہو گیا تھا اس دوران ان پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ جس شوہر کے انتظار میں وہ رات دن دعائيں کر رہی ہیں وہ کسی اور عورت کے لیے ان کو چھوڑ گیا ہے اور اب اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے-
اس وقت میں حیا نے اپنے عزیز و اقارب سے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ کم عمری میں شادی کے باعث حیا تعلیم مکمل نہ کر سکی تھیں اس وجہ سے وہ کوئی نوکری بھی نہ کر سکتی تھیں- اس موقع پر ان کے ایک کزن نے ان کی مدد کی اور ان کو ایک گاڑی خرید کر دے دی جس کو حیا نے کرائے پر ڈرائيور کو دینا شروع کر دیا-
مگر تنہا عورت سمجھ کر ان کو اس شعبے میں بھی صرف دھوکے ہی ملے اور منافع کے بجائے الٹا نقصان ہی کرتی رہیں اس موقع پر بچوں کی پرورش کے خیال نے حیا کو مضبوط کر دیا اور انہوں نے خود ڈرائيونگ سیکھنے کا فیصلہ کیا-
ڈرائيونگ سیکھنے کے بعد حیا نے کراچی کی خواتین کے لیے پک اینڈ ڈراپ سروس کا آغاز کر دیا جو بہت کامیاب فیصلہ ثابت ہوا اور اس طرح حیا کو آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ بھی مل گیا- اس کے بعد حیا نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آن لائن جیولری ، میک اپ کا سامان اور کپڑے بیچنے کا بھی کام شروع کر دیا-
آج حیا ایک کمزور عورت سے ایک کامیاب بزنس وومن میں تبدیل ہو چکی ہیں شوہر کی بے وفائی کے غم کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے انہوں نے اس کو اپنی طاقت بنا لیا اور کامیابی کے ساتھ نہ صرف اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہیں بلکہ باقی تمام عورتوں کے لیۓ بھی ایک مثال بن گئی ہیں-