in

1993 کا ایک راشن کا بل جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردے گا

1993 کا ایک راشن کا بل جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردے گا

آپ میں اور ہم سب اس وقت 2022 میں سانس لے رہے ہیں۔ ہر روز کی خبروں میں ڈالر کی پرواز بلند سے بلند تر ہونے کو ہم سب ہی سن رہے ہیں ڈالر اور پٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے ہر گھر کے بجٹ کو بری طرح متاثر کر ڈالا ہے-

غریب اور سفید پوش لوگ اب اس حال تک پہنچ چکے ہیں کہ ان کی چیخیں بھی بلند ہونا مشکل ہو گیا ہے- ایسے وقت میں مہینے بھر کے راشن کے صرف 650 روپے میں ہونے کے خیال سے دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے-

ایک پرانا بل جو کچھ زيادہ پرانا بھی نہیں

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر پاکستان کے کسی پرچون کے دکاندار کے بنائے گئے ایک گھر کے ماہانہ بل کے چرچے ہر طرف عام ہورہے ہیں مذکورہ بل 12 اپریل 1993 کا ہے اور کسی گھرانے کا ایک ماہ کے راشن کا بل لگ رہا ہے-

بل میں لکھی اشیا ضروریہ کی اشیا ایک جانب تو اس حد تک سستی ہیں کہ 15 کلو آٹے کی قیمت ہی صرف 87 روپے میں دستیاب تھا جب کہ حالیہ دور میں اس قیمت میں صرف ایک کلو آٹا مل سکتا ہے جس سے مہنگائی کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے-

اس بل کو بغور دیکھا جائے تو پورے مہینے کا تمام اشیا ضرورت کا سامان جس میں آٹا دال گھی تیل چینی پتی دالیں مصالحے اور مہمانوں کی تواضح کے لیۓ روح افزا بھی شامل ہے صرف اور صرف 651 روپے میں دستیاب ہے-

حالیہ دور میں ماہانہ بل کئی گنا زيادہ سبب مہنگائی یا کچھ اور

دنیا بھر میں مہنگائی کا واویلا تو ہم سب ہی سنتے آرہے ہیں اور اس کی ذمہ داری بھی حکومتوں کے سر تھوپ رہے ہیں لیکن آج اس راشن کے بل نے ایک بہت اہم نقطہ سمجھا دیا جو کہ آپ کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں گے –

اس لسٹ میں اور آج کے دور کے راشن کی لسٹ میں کچھ بڑے فرق موجود تھے جن کو دیکھ کر ایک بہت بڑا نقطہ سمجھ میں آگیا یہ نقطہ اگر آپ لوگ بھی سمجھ لیں تو شائد ہم مہنگائی پر قابو پاسکتے ہیں-

1: لسٹ میں صرف ضرورت کا سامان تھا

اس لسٹ کا موازنہ اگر آج کے دور کے کسی بھی گھر کی لسٹ سے کریں تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اس بل میں اشیا ضروریہ ہیں جب کہ ایسا کوئی سامان موجود نہیں جو کہ آج کے بلوں کا لازمی حصہ ہے جیسے شیمپو، نوڈلز ، جوسز چپس وغیرہ-

2: باہر ملک سے امپورٹ کیا گیا سامان نہ ہونے کے برابر

اس پورے بل میں چائے کے علاوہ باقی تمام وہی اشیا تھیں جو کہ ملک کے اندر ہی موجود ہوتی ہیں جن کو منگوانے کے لیے زر مبادلہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور یہی چیزیں ہمارے ملک کو کمزور کر رہی ہیں-

3: بچوں کے لیے چپس بسکٹ جیسی عیاشی نہیں

ماضی میں چھوٹے بچوں کے لیے کھچڑی ، روٹی نرم کر کے کھلا دینا دودھ سوجی بنا کر دینے کا رواج تھا جو سیریلیک نے بدل دیا اور سیریلیک پر پلنے والے بچے جب تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی بھوک مٹانے کے لیے نوڈلذ ، نگٹس وغیرہ وغیرہ ہی بچوں کی غذا ٹہری جن کی ماہانہ کھاتے میں خریداری بل کو یک دم بہت بڑھا دیتے ہیں-جب کہ ماضی کے بل میں ایسا کچھ نہ تھا-

4: مشروب کے نام پر سوڈہ مشروبات موجود نہیں

ماضی میں گھر آئے مہمان کے لیۓ ٹھنڈا اور میٹھا روح افزا پیش کیا جاتا تھا اور اگر مہمان بہت ہی خاص ہوتے تو اس کے لیے ایک کانچ والی سوڈہ ڈرنک کی بوتل منگوا لی جاتی تھی- مگر ماہانہ راشن میں سوڈہ بوتلوں کی شمولیت عیاشی سے تعبیر کی جاتی تھی جب کہ آج کے دور میں یہ مشروبات ماہانہ خریداری کا ایک اہم حصہ ہیں-

قصہ مختصر!

اس سارے معاملے کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ
کچھ مہنگائی زيادہ ہے تو کچھ ہمارے اللے تللے کے خرچوں نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچا دیا ہے جس کو ایک مناسب ماہانہ راشن کی لسٹ سے کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے –

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تاکہ ظفراللہ جمالی کو یاد رہے کہ اصل طاقت ہم ہیں اور ہم اسے کسی بھی وقت اتار سکتے ہیں ۔۔۔ ایک بار قومی اسمبلی میں ظفراللہ جمالی کو صرف چند ووٹوں سے کیوں کیسے اور کس نے جتوایا ؟ اعزاز سید کے انکشافات

یہ ہے وہ تسبیح جو دن میں 1بار پڑھ لے زمین کی 7تہوں میں بھی دولت ورزق ہوگا