اپنے گروپ کو بچانا ہے یا (ن) لیگ کا ساتھ دینا ہے ؟ ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کے لیے نئی مشکل کھڑی ہو گئیu
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بہت سے لوگوں کا بہت کچھ دائو پہ لگا ہے ۔عمران خان کا بیانیہ، ن لیگ کے سخت فیصلوں کا ممکنہ ردعمل، شاہ محمود قریشی کے خاندان کی ناموس، جہانگیر ترین کا مستقبل اور حمزہ شہباز کے وزیر اعلی برقرار رہنے کے لیے مطلوبہ تعدادکا تعین۔ ان انتخابات کے بعد کئی طرح کے نتائج اخذ کیے جا سکیں گے ۔
یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات کو قریب سے دیکھنے کے لیے میں آجکل پنجاب کے مختلف حلقوں کا خود دورہ کر رہا ہوں، 92 نیوز کے پروگرام کراس ٹاک کے لیے ریکارڈنگز بھی کر رہا ہوں اور اسی موضوع پر مسلسل کالم بھی لکھ رہا ہوں تا کہ مختلف حلقوں کے زمینی حقائق ناظرین اور قارئین کے سامنے رکھے جا سکیں۔ عمران خان کو جب سے وزیر اعظم کی کرسی سے ہٹایا گیا ہے وہ مسلسل نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ عمران خان کو لگتا ہے ان کا بیانیہ اتنا مقبول ہے کہ وہ آسانی سے الیکشن جیت کر دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے۔ انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ مہنگائی کی شدید لہر کے بعد عوام ن لیگ کے لیے اپنے غصے کا اظہار کریں گے اور انہیں دوبارہ مسند اقتدار پہ لا بٹھائیں گے۔ اگر عمران خان کااپنے اور اپنی جماعت کے بارے میں یہ گمان ٹھیک ہے تو انہیں پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ستر فیصد نشستیں اپنے نام کر لینی چاہیں مگر حلقوں میں آ کر زمینی حقائق کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوبائی حلقوں کی سیاست میں کسی بھی جماعت کے مجموعی بیانیے کا دخل شاید پچیس فیصد سے زیادہ نہیں ۔ قومی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہوتے تو شاید قومی بیانیے کا عمل دخل زیادہ ہوتا مگر صوبائی سطح پر ہر حلقے کے دائنامکس مختلف ہیں ۔
خصوصا دیہی حلقوں میں لوگوں کا موضوع اپنی سڑک ،نالی، گلی اور گٹر ہے۔ یہی ان کے مطالبات ہیں اور یہی ان کے ووٹ دینے کا معیار۔ مثلا شاہ محمو د قریشی کے حلقے میں لوگوں کو اس بات سے غرض نہیں کہ انہوں نے پاکستان کے لیے کتنی اچھی خارجہ پالیسی بنائی، انہیں اس بات کا شکوہ ہے کہ وہ اور ان کے صاحبزادے چار سال حلقے میں نظر کیوں نہیں آئے۔اس کے علاوہ خاندانی اور موروثی سیاست پارٹی کی سیاست سے بڑھ کر ہے۔مثلالودھراں میں پیر عامر اقبال شاہ کو اپنے حریف زوار وڑائچ پر اس لیے سبقت حاصل ہے
کہ ان کا خاندان تین نسلوں سے سیاست کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بار بار پارٹی بدلنے سے بھی ان کے ووٹ بینک پر خاص فرق نہیں پڑتا، ہار اور جیت کی وجوہات ہر بار مختلف ہوتی ہیں ۔ لہذا جولوگ عمران خان کے بیانیے سے صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں انہیں دوسرے عوامل پر بھی ایک بھرپور نظر ڈالنی چاہیے ۔ یہ ضمنی انتخابات صرف عمران خان ہی کا امتحان نہیں ہیں حمزہ شہباز کے لیے بقا کی لڑائی بھی ہیں ۔ ن لیگ اور حمزہ شہباز کے لیے یہ تہرا امتحان ہے ۔ ایک طرف تو انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کے عمل کو درست ثابت کرنا ہے ، دوسرا مہنگائی کی نئی اور شدید لہر جیسے دبائو کا مقابلہ کرنا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلی برقرار رہنے اور اپنی برتری بنائے رکھنے کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ نشستوں کی ضرورت ہے۔ اگر ن لیگ یہ انتخاب ہارتی ہے تواس کا بیانیہ اور حکومت پلٹنے کا اقدام اس کی سیاست پر نہایت منفی اثرات مرتب کرے گا۔ ان انتخابات میں شاہ محمود قریشی نے بھی نہایت دلیرانہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے بیٹے کو سلمان نعیم کے مقابلے میں میدان میں اتارا ہے ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب 2018 میں شاہ محمود قریشی سیاست کا تیس سالہ تجربہ رکھنے کے باوجود کل کے بچے اور آزاد امیدوار سلمان نعیم کو شکست نہ دے سکے تھے تو اب ان کے صاحبزادے زین قریشی اسی سلمان نعیم کو کیسے شکست دیں گے جس کے پاس اب ن لیگ کا ٹکٹ بھی ہے۔ اگر شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے کی یہ سیٹ ہار جاتے ہیں تو ان کے خاندان کو علاقائی سطح پر ایک بڑا دھچکا لگے گا۔ تاثر ملے گا کہ پہلے شاہ محمود قریشی ایک گمنام نوجوان سے ہار گئے اور اب ان کا بیٹا۔ لہذا قریشی خاندان کے لیے یہ سیٹ جیتنا نہایت ضروری ہو چکا ہے جبکہ میرے مشاہدے اور تجزیے کے مطابق ابھی تک زین قریشی کو اس سیٹ پر برتری حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ دوسری طرف جہانگیر ترین کی سیاست بھی دائو پر لگی ہے ۔
شاہ محمود قریشی کو تو وہ شاید ہرانے میں کامیاب ہو جائیں مگر ان کی اپنی سیاست بھی خاص کامیابیوں سے ہمکنار نہیں ہو رہی ہے۔ وہی جہانگیر ترین جو عمران خان سے ناراضی کے بعد صحافیوں کے سوالات کے جواب میں پوچھا کرتے تھے کہ آپ ہی بتائیں میں بھلا ن لیگ میں کیسے جا سکتا ہوں ، وہی جہانگیر ترین اب اپنے پورے گروپ کو ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا رہے ہیں مگرخود کہیں خاموش بیٹھے ہیں ، اپنے گروپ کے امیدواروں کی مہم میں نظر نہیں آ رہے ۔ ان کی سیاسی بقا کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام امیدواروں کی نشستیں دوبارہ حاصل کریں
جنہیں انہوں نے 2018 میں فتح دلائی تھی۔ اگر وہ ایسا نہ کر پائے تو سیاست میں ان کی ناکامی کا تاثر مزید مضبوط ہو گا۔ اس کے علاوہ اپنے گروپ کی اسی فتح کی بنیاد پر انہوں نے 2023 کی حکمت عملی تیار کرنی ہے ۔ ان انتخابات میں ہار یا جیت کی ن کی سیاست پر اہم اثرات مرتب کرے گی۔ ادھر لاہور ہائی کورٹ میں ایک بہت اہم کیس زیر سماعت ہے ،عدالت نے قرار دینا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ ہونے کا فیصلہ حمزہ شہباز پر لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔اس کی پچھلی سماعت 16 جون کو ہوئی تھی اور اب اگلی سماعت 28 تاریخ کو ہونا ہے۔ ایک آدھ تاریخ اور پڑی تو 17 جولائی کا دن آن پہنچے گا تب نئے امیدوار اسمبلی میں پہنچ چکے ہوں گے اور یہ سوال غیر متعلقہ ہو جائے گا کہ منحرف اراکین کے ووٹوں سے حمزہ شہباز وزیر اعلی بنے بھی ہیں یا نہیں ۔ عقل مند را اشارہ کافی است۔ بشکریہ نامور کالم نگار اسد اللہ خان ۔