in

اگر آپ بھی راہ چلتے مفت سم یا اسکیموں کے لیے انگھوٹے لگاتے ہیں تو یہ بات جان لیں

اگر آپ بھی راہ چلتے مفت سم یا اسکیموں کے لیے انگھوٹے لگاتے ہیں تو یہ بات جان لیں

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں جگہ جگہ مفت سم اور امدادی و مختلف اسکیموں کیلئے بائیو میٹرک مشینوں کے ذریعے انگوٹھے لگانے کے بعد شہریوں کے فنگرز پرنٹس کے غیر قانونی استعمال کے حوالے سے شکایات میں اضافہ ہوگیا۔پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق کچھ جعلساز شہریوں کو چلتے پھرتے مفت میں موبائل سم کارڈز یا

امدادی اسکیموں کا دھوکہ دے کر ان کے انگوٹھوں یا انگلیوں کے نشانات لے کر محفوظ کرلیتے ہیں، شناختی کارڈ اور دیگر ذاتی معلومات حاصل کرتے ہیں، یہ قیمتی ڈیٹا غیرقانونی سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔اطلاعات کے مطابق مفت میں نئی موبائل فون سم،

امدادی اسکیموں میں انعام نکلنے یا ایسی ہی دوسری فری پرکشش خدمات کی فراہمی کا جھانسہ دے کر شہریوں کے فنگر پرنٹس اور دیگر معلومات حاصل کرنے والے گروہ اہم ڈیٹا شہریوں کے بینک،

موبائل اکاؤنٹس سے رقوم نکالنے اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔پی ٹی اے نے شہریوں کو فنگر پرنٹس دیتے ہوئے محتاط رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سرراہ کسی پرکشش آفر دینے والے کو اپنا فنگر پرنٹ یا قیمتی ڈیٹا ہرگز نہ دیں

بلکہ اپنی ضرورت کے تحت اطمینان کے بعد اپنے فنگر پرنٹس کسی مجاز سیلز شاپ، کسٹمر سروس سینٹر، فرنچائز یا انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشانات کی تصدیق کا موثر نظام رکھنے والے ریٹیلر کو ہی دیں۔پی ٹی اے حکام کے مطابق شہری فنگر پرنٹس دیتے

وقت اپنے پاس یہ تفصیلات ضرور نوٹ کرلیں کہ انہوں نے کس موبائل فون کمپنی یا کسی ادارے کے سیلز آفس کا کب وزٹ کیا؟ فنگر پرنٹس دینے کا مقصد، سیلز چینل کا نام اور پتہ وغیرہ

بھی تاریخ کے ساتھ محفوظ رکھیں تاکہ ان ایام میں شہری کے ساتھ کوئی دھوکہ دہی ہوئی ہو تو اس کا سدباب کیا جا سکے۔ حکام کے مطابق کسی دھوکہ دہی کا شبہ ہونے پر پی ٹی اے سی ایم ایس موبائل ایپ پر یا ویب سائٹ کے ذریعے پی ٹی اے کو رپورٹ کریں

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

وہ ابھی زندہ ہیں– شہرت کے آسمان سے ایسے اوجھل ہوئیں کہ لوگ انہیں ڈھونڈتے ہی رہ گئے ۔۔۔صنم اقبال آج کہاں ہیں

کامیاب ہونے کے لئے امیر ہونا ضروری نہیں ۔۔ کراچی کی کچی آبادی میں رہنے والی لڑکی ڈاکٹر کیسے بنی؟