آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کے دماغ ملا کر جو چیز بنتی ہے اسکا مقابلہ کوئی سیاسی طاقت نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔ حیران کن دعویٰ کر دیا گیا
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار نجم ولی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں دوہزار چودہ جیسی حکومت اور پالیسی کا مقابلہ کرنا پڑے گا مگران سے معاملات کو سمجھنے میں مسلسل غلطی ہو رہی ہے۔ وہ بری طرح پھنس چکے ہیں کہ اگر وہ حکومت
کو پھنسانے میں جلدی کرتے ہیں تو خود خطرے میں اور اگر دیر کرتے ہیں تو اس میں بھی ان کا سیاسی طور پر خاتمہ لازمی ہے جب نئی حکومت معاملات کو درست سمت میں ڈال لے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عین اس دن لانگ مارچ رکھا جس روز پاکستان کے آئی ایم ایف سے حتمی مذاکرات ہو رہے ہیں ۔ ان کے پاس لانگ مارچ ملتوی کرنے کے لئے بہت اچھا موقع تھا
جب ان سے کشمیری رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک بار بار اپیل کر رہی تھیں، ان کی کم سن بیٹی رضیہ سلطانہ کہہ رہی تھی کہ انکل عمران خان، آپ اپنا لانگ مارچ دو دن کے آگے کر دیں، اس روز مودی میرے والد کو زندگی سے محروم کرنے جا رہا ہے۔ مشعال ملک صاحبہ سے میری بات ہو ئی تو انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنے اس احتجاج اور مارچ کو کشمیر کی آزادی اوریسین ملک کی رہائی کے مطالبے سے جوڑ دیں
مگر عمران خان اپنی سیاسی مقاصد سے اہم کچھ نہیں سمجھتے، ملک اور قوم کو بھی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اس بدقسمت ملک کے وزیراعظم نہیں ہیں تو پھر اس پر ایٹمی ہتھیار گرا دینا بہتر ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ وہ انٹرنیشنل سے لے کر لوکل اسٹیبلشمنٹ تک طاقت کے کھیل کے ہر پلئیر کا اعتماد کھوچکے ہیں، وہ جتنے ہاتھ پیر ماریں گے، دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے۔ انہیں مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اچھے وقت کا انتظار کریں۔عمران خان کو اپنی
حکومت کے خاتمے سے اب تک جو سب سے بڑا فائدہ رہا وہ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے لندن میں موجود قائد نواز شریف کا معاملات پرکمزور، مبہم اور اختلافی نکتہ نظر تھا۔ وہ بارہ اپریل سے ہی، جس روز شہباز شریف نے حلف اٹھایا تھا، دباو ٔڈال رہے تھے کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مطالبے میں وہ عمران خان کے علانیہ اتحادی نظر آتے تھے اور اسی کنفیوژن نے حکومت کو عملی طور پر جامد کر رکھا تھا۔
حکومت کے لئے نواز شریف کا رویہ صدر اور گورنر سے زیادہ مشکلات پیدا کرنے والا تھا۔ حکومت میں موجود لوگوں کو اور جماعتوں کو اس پر شکر ادا کرنا چاہئے کہ سابق صدر آصف علی زرداری، نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کو سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ انہیں حکومت کرنی ہے، بھاگنا نہیں ہے۔ میری رائے میں مولانا فضل الرحمان بھی نواز شریف کی پراکسی وار لڑ رہے تھے کیونکہ وہ صدر مملکت بننا چاہتے ہیں اور اس کے لئے انہیں نواز شریف کی غیر مشروط مدد درکار ہے۔ اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ملک کو بدترین اقتصادی مشکلات سے نکالنے کے لئے حکومتی اتحاد اپنی صفوں میں ابہام ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے وہاں وہ عمران خان بار ے اپنی سیاسی حکمت عملی پر بھی یکسو ہو گیا ہے ورنہ اس سے پہلے حکمرانوں کی صفوں میں سے ہی لوگ عمران خان کے دباؤ میں تھے۔
لانگ مارچ کا کامیابی سے روکاجانا حکومت کے اعتماد میں اضافہ کرے گا اور شہباز شریف کو بھی یقین آئے گا کہ وہ وزیراعظم بن چکے ہیں ۔حکومت کے سامنے اصل چیلنجز معاشی ہیںا ور انہیں سیاسی معاملات میں الجھا کران چیلنجز کو پورا کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان ایک ایسا کمبی نیشن ہے جس کی ’ کولیکٹو وزڈم ‘ اور صلاحیتوں کو شکست دینا کسی کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔