12 گھنٹے بجلی نہیں، ادویات اور آٹا بھی پہنچ میں نہیں – سری لنکا کے بعد اگلا ملک پاکستان؟
رشان کو پیٹرول پمپ پر اپنی گاڑی کھڑی کئے 4 گھنٹے سے زائد ہوچکے تھے، شائد ابھی دو گھنٹے اور انتظار کرنا تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ رشان کے گھر والوں نے پوری رات بنا بجلی کے گزاری اور یہ صرف ایک رات اور دن کی بات نہیں بلکہ سری لنکا میں ہر خاص و عام کے دن رات گزشتہ کئی ماہ سے یونہی گزررہے ہیں بلکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پورے ملک میں ادویات اور بچوں کے دودھ سمیت عام کھانے پینے کی اشیا اب عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔
جواب سادہ سا یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے حکمرانوں نے ملکی آمدن دیکھے بغیر اخراجات کو پورا کرنے کیلئے غیر ضروری قرضے دنیا بھر سے لینا شروع کردیے اور ادائیگی کے وقت ملکی آمدن کم ہونے کی وجہ سے ادائیگیاں نہ ہوسکیں۔ نتیجہ سری لنکا معاشی طور پر دیوالیہ ہوگیا۔
سوا دو کروڑ آبادی کے اس ملک سے اگر ہم پاکستان کا موازنہ کریں تو یہاں بھی حالات مختلف نہیں ۔ اگر پاکستانی حکمران آمدن بڑھائے بغیر آئی ایم ایف سمیت دیگر ملکوں سے مزید نئے قرضے پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لیتے رہے تو شائد خدا نخواستہ اگلے دو سے چار سال میں پاکستانیوں کو بھی سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
سری لنکا اور پاکستان۔۔۔ حالات ایک جیسے:
سری لنکا کی درآمدات یعنی ملک میں باہر سے چیزیں زیادہ منگوائی جاتی ہیں اور کوئی بھی ملک جب اپنی ضروریات کی چیزیں اپنے ملک میں بنانے کی بجائے دوسرے ملکوں سے منگوانا شروع کردے تو اسے بیرونی دنیا کو بھاری ادائیگی بین الاقوامی کرنسی یعنی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے۔
یہ صورتحال اس وقت خراب ہونے لگتی ہے جب اپنے ملک کی تیار پروڈکٹس کی مقدار کم ہونے لگے اور باہر سے منگوائی گئی چیزیں یعنی درآمدات بڑھ جائیں۔
یہی صورتحال سری لنکا میں ہوئی جہاں صرف جنوری 2022 میں امپورٹ یعنی باہر سے منگوائے گئے سامان کی قیمت کے طور پر تقریباً2200 ملین ڈالر ادا کئے گئے جبکہ ایکسپورٹ صرف 11سو ملین ڈالر کی تھیں یعنی نقصان 11 سو ملین ڈالر کا تھا جو 50 فیصد بنتا ہے۔
سال 2022مہینہ جنوری
برآمدات :(ایکسپورٹ) 11 سو ملین ڈالر
درآمدات :(امپورٹ ) 22 سو ملین ڈالر
نقصان یا منفی فرق :11 سو ڈالر
ایسے نقصان کو پورا کرنے کیلئے آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کی مدد لی جاتی ہے لیکن اگر ایک ملک نے پہلے ہی بھاری قرضے لئے ہوں اور ان کی قسطوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو تو مزید نئے قرضے نہیں دیئے جاتے۔
وہیں اگر پرانے قرضوں پر سود کی قسطیں ادا کرنے کے پیسے بھی نہ بچیں تو ایسی صورتحال میں وہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہوجاتا ہے۔
دیوالیہ ہونے پر ایک ملک کو کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ تو جانئے
2۔ چلتی معیشت کی تباہی شروع:
نئے قرضے نہ ملنے پر چلتی ہوئی ملکی معیشت مزید تباہی کا شکار ہوجاتی ہے۔
3۔ کرنسی کی تباہی اور مہنگائی میں اضافہ ناقابل یقین :
ملکی کرنسی کی قدر روزانہ کی بنیاد پر گرنا شروع ہوجاتی ہے۔یعنی جو پیٹرول ایک لیٹر 150 روپے کا ہوگا وہ 2 ماہ بعد 500 روپے سے بھی اوپر جاسکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ گھنٹوں طویل قطاروں میں لگنے کے بعد بھی پیٹرول نہ ملے ۔
4۔ بیرونی دنیا میں سامان اور اثاثوں کی ضبطی:
دیوالیہ ہونے کی صورت میں بیرونی دنیا اس ملک کا تجارتی سامان ضبط کرنا شروع کردیتی اور ملکی بحری و ہوائی جہاز کئی ممالک میں ضبط کرلئے جاتے ہیں۔
5۔ بیروزگاری اور مہنگائی کا جن بوتل سے باہر:
بیروزگاری اور مہنگائی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور یہ دونوں چیزیں بڑھ کر قابوسے باہر ہوجاتی ہیں اور صورتحال اگلے 10 سال میں بھی بہتر ہونا ناممکن ہوجاتا ہے۔
6۔ بجلی اور تیل کے بغیر زندگی
پیٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہوجاتی ہے اور ملک میں ایندھن کی کمی کی وجہ سے بجلی کاسنگین بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ بجلی مکمل بند یا پھر18 سے 20 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔
اب اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان نے بھی مارچ میں 6 بلین ڈالر کی امپورٹ اور 3 بلین ڈالر کے قریب ایکسپورٹ کی جو پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
پاکستانی حکمرانوں نے اگر آج سری لنکا کے حالات سے سبق حاصل نہ کیا اور مستقبل کی پلاننگ سخت انداز میں نہ کی تو خدا نہ کرے پاکستان بھی آنے والے 2 سے 4 سال میں ایسے حالات کا شکار ہوسکتا ہے، ایسے حالات میں نہ موجودہ سیاستدان عوامی لیڈر رہیں گے اور نہ ہی ان کی سیاسی پارٹیاں۔۔۔