اس میں کوئی شک نہیں عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے سی آئی اے نے سازش کی ۔۔۔۔۔معتبر امریکی شخصیت کے انکشاف نے تہلکہ مچا دیا
لاہور (ویب ڈیسک)نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ پہلی دفعہ 1992ء میں امریکی کانگریس کی رکن منتخب ہو گئی۔ اس کی آواز دبانے کے لئے اعلیٰ عدالتوں کو استعمال کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے تکنیکی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے “Miller vs Johnson” میں لکھا کہ
سنتھیا جس حلقے یعنی گیارہویں (11th)ڈسٹرکٹ سے منتخب ہوئی ہے اس کی حد بندی اس طرح کی گئی ہے کہ وہاں سیاہ فام افراد کی اکثریت ہو گئی، یہی وجہ ہے کہ یہ وہاں سے جیت گئی۔ سنتھیا نے تبصرے کرتے ہوئے کہا کہ اسے اس فیصلے سے تعصب کی بُو آتی ہے۔ حلقہ بندی دوبارہ کی گئی مگر وہ پھر بھی جیت کر کانگریس کی رکن بن گئی۔ گیارہ ستمبر 2001ء کو جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ ہوا تو اس کے بعد کسی کی ہمت نہیں تھی کہ جارج بش انتظامیہ کے خلاف گفتگو کرے۔ مگر سنتھیا نے کہا یہ واقعہ دراصل امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ میں جارحانہ پالیسیوں کا ردّعمل ہے۔
اس بیان کے بعد دونوں سیاسی پارٹیوں میں موجود یہودی لابی کے افراد اسکے خلاف متحرک ہو گئے۔ اس نے اپنی ڈیمو کریٹک پارٹی میں آگے بڑھنے کے لئے نائب صدر یا صدر کا امیدوار بننا چاہا تو 2002ء کے پرائمری پارٹی الیکشن میں ہی اسے شکست ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ لاتعداد ریپبلکن پارٹی کے ممبران نے بھی ڈیمو کریٹک پارٹی کے کنونشن میں شرکت کر کے سنتھیا کے خلاف ووٹ دیئے۔ اس کے باوجود وہ کانگریس کا بار بار رکن منتخب ہوتی رہی۔ اسے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں یہودی سرمایہ چلتا ہے اور یہودی میڈیا ہی ان کی مدد کرتا ہے، اس لئے وہ ان پارٹیوں میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس نے امریکہ میں چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے ایک اتحاد ’’گرین پارٹی‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی
اور اس اتحاد نے اسے 2008ء میں امریکہ کے صدارتی الیکشن میں اپنا امیدوار بنایا جس میں باراک اوباما جیت گیا۔ یہ امریکہ کی واحد سینیٹر ہے جو 2008ء سے اب تک مسلسل اسرائیل کے خلاف نہ صرف مظاہروں میں شرکت کرتی رہی ہے بلکہ یہ خود بھی مظاہروں اور جلسوں کا اہتمام کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس نے لاتعداد امریکی اور یورپی سیاست دانوں اور صحافیوں کو غزہ کا دورہ بھی کروایا ہے۔
وہ برطانوی پارلیمنٹیرین جارج گیلوے (George Galloway) کو لے کر 15 جولائی 2009ء کو غزہ جا پہنچی اور اسرائیل اور صیہونیت کے خلاف اپنے احتجاج کا اظہار کیا۔ جانے سے پہلے اس نے واشنگٹن میں ’’اسرائیل کی مسلمانوں کی نسل کشی‘‘ کے نام پر ایک بہت بڑی ریلی بھی نکالی۔ امریکی سیاست کی اس عظیم خاتون اور صیہونیت کے خلاف جاندار آواز نے عمران خان کی حکومت کو تبدیل کرنے سے متعلق اپنے ٹویٹ میں گواہی دی ہے کہ یہ امریکی سی آئی اے کی سازش ہے۔ اس نے لکھا ہے “The US had a big hand in overthrow of Imran Khan of Pakistan.” ’’امریکہ کا پاکستان کے عمران خان کی حکومت ختم کرنے میں بہت بڑا ہاتھ ہے‘‘۔
اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اس نے لکھا ہے کہ عمران خان نے روس کی مذمت کرنے سے انکار کیا، پابندیوں کی مخالفت کی اور ساتھ ہی سی آئی اے کو پاکستان میں اڈے دینے سے انکار کیا۔ وہ ’’فلسطینیوں کے حقوق کا ہمیشہ ترجمان رہا ہے‘‘۔ امریکہ سے یہ گواہی صرف ایک سنتھیا کی نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو امریکی سی آئی اے کو جانتا ہے اور امریکی معاشرے میں تھوڑی سی آواز رکھتا ہے وہ یہ گواہی دے رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو امریکہ نے گرایا ہے۔
برطانوی سیاست دان جارج گیلوے جیسا شخص اس معاملے میں اس قدر غصے سے بولا ہے کہ اس نے شہباز شریف کے خلاف تمام سفارتی آداب بھی بالائے طاق رکھ دیئے۔ وہ لوگ جو امریکہ کو جانتے ہیں وہ سب کہہ رہے ہیں کہ یہ سب امریکہ نے کیا ہے اور وہ جو امریکہ کی مانتے ہیں وہ مؤدبانہ طور پر کہہ رہے ہیں یہ تو صرف ہمارا مقامی معاملہ ہے۔ غیرت و حمیت والوں اور مؤدب غلاموں میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے۔