میاں نواز شریف بار بار آسمان کی طرف دیکھتے ہیں او رکہتے ہیں ’’ہم سے شاید کوئی ایسی غلطی ہو گئی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اور ہم اس کی پکڑ میں آ گئے ہیں‘‘ جاوید چودھری کا حیران کن انکشاف
اسلام آباد (جاوید چودھری کالم: میاں نواز شریف سے دوسری ملاقات)میں جنوبی افریقہ سے واپسی پر دو دن کے لیے لندن رکا‘ المصطفیٰ ٹرسٹ کا سیلاب زدگان کے لیے فنڈ ریزنگ ڈنر تھا‘
یہ تنظیم عبدالرزاق ساجد نے بنائی اور یہ پاکستان سمیت بے شمار اسلامی ملکوں میں خدمت خلق کر رہی ہے‘ لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں اور یہ لوگ ان لوگوں کے اعتماد پر پورا اترتے ہیں‘میں نے مدت بعد پاکستانیوں کا کوئی ایسا فنکشن دیکھا جس میں کوئی سیاسی فساد ہوا
اور نہ کوئی کھینچا تانی‘ لوگوں نے ایک دوسرے کی گفتگو بھی اطمینان سے سنی اور سیلاب زدگان کی مدد کے لیے فنڈز بھی دیے‘ میری دوسرے دن میاں نواز شریف سے ملاقات طے تھی‘ میاں صاحب اور اسحاق ڈار دونوں اپنی مخصوص نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے‘ سندھ سے بھی چند حضرات آئے ہوئے تھے اور ن لیگ کے ایک نیازی سینیٹر بھی وہاں موجود تھے
‘ میاں صاحب اپنے احباب کے ساتھ دفتر ہی میں نماز پڑھتے ہیں‘ نماز کے لیے کمرہ مخصوص ہے‘ وہاں جائے نماز بچھی ہوئی ہے اور دفتر کا سارا سٹاف باجماعت نماز ادا کرتا ہے‘ چودھری عبدالشکور امامت کرتے ہیں‘ یہ نماز جمعہ بھی پڑھاتے ہیں‘ میاں نواز شریف کے بہت قریب ہیں‘ نماز کے بعد لنچ شروع ہو گیا۔ہم میاں نواز شریف کے سیاسی فیصلوں سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں‘
ہم ان کی زندگی کے فلسفے کو بھی ناپسند کر سکتے ہیں لیکن جہاں تک ان کی شخصیت کا تعلق ہے‘ یہ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں اور ان کی ہر خوبی قابل تعریف بھی ہے مثلاً ان کی شخصیت میں عاجزی ہے‘ یہ تمام لوگوں سے اٹھ کر ملتے ہیں‘ گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہیں‘ دوسروں کی گفتگو توجہ اور اطمینان سے سنتے ہیں‘ سوال پر سوال کرتے جاتے ہیں
اور جواب خواہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو یہ خاموشی سے سنتے جاتے ہیں‘ مہمان نواز بھی ہیں اور یہ سب سے پہلے عام اور چھوٹے ملازمین کو کھانا کھلاتے ہیں اور پھر آخر میں کھانا لیتے ہیں‘اس دن بھی انہوں نے تھوڑی سی مقدار میں کھانا لیا تاہم کھانے کے دوران گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا‘ چودھری عبدالشکور قرآنی واقعات اور احادیث سناتے رہے اور باقی حضرات توجہ سے سنتے رہے‘ میاں صاحب گہرے انسان ہیں
‘ یہ سیاسی معاملات کی ہوا نہیں لگنے دیتے‘ میں اس دن تین گھنٹے ان کے ساتھ بیٹھا رہا مگر انہوں نے آرمی چیف کی تقرری‘ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی اور اسحاق ڈار کیواپسی تک کسی ایشو پر کوئی تاثر نہیں دیا‘ یہ عموماً ایسے معاملات پر پوچھنے والے سے سوال کر دیتے ہیں ’’آپ بتائیں ہمیں اس معاملے میں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ اور پوچھنے والا بتانے میں
مصروف ہو جاتا ہے‘ یہ ملاقات کے آخر میں ملاقاتیوں کو کھڑے ہو کر تپاک کے ساتھ رخصت بھی کرتے ہیں‘ یہ اندر سے دکھی ہیں اور یہ اپنے دکھ کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں‘ اس دن بھی انہوں نے غالب کے تین شعر سنائے جن کا مطلب یہ بنتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نہ جانے کب ہماری مشکلیں آسان کرے گا؟مجھے زندگی میں زیادہ تر صاحبان اقتدار کو اقتدار سے پہلے‘ اقتدار کے دوران اور اقتدار کے بعد دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ میری جنرل رائے ہے اقتدار سے پہلے اور اقتدار کے بعد ان کی کمپنی زیادہ اچھی نہیں ہوتی‘
جنرل مشرف اس کی بدترین مثال ہیں‘ یہ اقتدار میں تھے تو ان کے دائیں بائیں سمجھ دار اور تجربہ کار لوگ نظر آتے تھے لیکن یہ جوں ہی دوبئی اور لندن میں مقیم ہوئے تو سدا کے مایوس‘ فارغ اور نالائق لوگوں نے ان کا محاصرہ کر لیا‘ ان لوگوں میں لندن کے ایک قصاب بھی شامل تھے‘اس سے صرف عمران خان کو نقصان نہیں ہو رہا بلکہ پورا ملک تیزی سے نیچے جا رہا ہے اور کوئی بھی حکومت اب ملک کو دوبارہ ٹریک پر نہیں لا سکے گی اور یہ لوگ عوامی نفرت کی وجہ بھی سمجھ نہیں پا رہے‘
شریف فیملی کے گھروں کے سامنے نعرے بازی اور سڑک پر ان سے سلوک یہ اس پر حیران بھی ہیں اور پریشان بھی اور یہ لوگوں سے اکثر یہ بھی پوچھتے رہتے ہیں ’’ہم نے آخر کیا جرم کر دیا ہےجس کی ہمیں سزا مل رہی ہے؟‘‘ لوگ کیا جواب دیتے ہیں میاں نواز شریف اس کی پروا نہیں کرتے‘ ان کی تان ہمیشہ آسمان پر ٹوٹتی ہے‘ یہ چھت کی طرف دیکھتے ہیں اور آہستہ آواز میں کہتے ہیں ’’ہم سے شاید کوئی ایسی غلطی ہو گئی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی
اور ہم اس کی پکڑ میں آ گئے ہیں‘‘ میں ان سے اتفاق کرتا ہوں‘ بے شک عزت‘ ذلت اور اختیار صرف اور صرف اس کے دست قدرت میں ہے اور وہ جب تک کسی کو خود نہ دے ہم میں سے کوئی شخص لے نہیں سکتا۔