انصار عباسی نے حکمرانوں ، اداروں اور قوم کو آئینہ دکھا دیا
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔کسی مذہبی حلیے والے فرد کی نازیبا وڈیو سامنے آ جائے تو ٹی وی چینلز سمیت سب کہتے ہیں کہ پکڑو پکڑو، قید میں ڈالو، سزا دو، تختہ دار پر چڑھا دو۔ لیکن اگر ایسی وڈیو کسی سیاستدان یا کسی دوسرے کی آ جائے
اور خاص طور پر اگر ایسا فرد سیکولر سوچ کا مالک ہو تو پھر نہ پکڑنے کی بات کی جاتی ہے، نہ قید میں ڈالنے یا سخت سزا کا کہا جاتا ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ ذاتی معاملہ ہے، اسے مت اچھالو ۔ اب تو ایک طبقہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اگر کسی مرد نے کسی عورت کے ساتھ اُس کی مرضی سے تعلق قائم کیا تو یہ کوئی جرم ہی نہیں۔ یہی لوگ ایک سابق گورنر اور سیاستدان کے بارے میں یہ بات کر رہے ہیں، چیئرمین نیب کی وڈیو پر بھی ان کا مطالبہ رہا کہ اس حوالے سے تحقیقات کی جائے اور اگر یہ وڈیو درست ہے تو چیئرمین نیب کو فارغ کیا جانا چاہئے۔ گویا طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن جرم یا گناہ کرنے والے کو دیکھ کر ہر کوئی اپنی اپنی مرضی کی سزا یا رعایت تجویز کر دیتا ہے۔اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ کسی کے عیب کی ٹوہ میں مت رہو اور اگر کسی کے اس طرح کے عیب یا گناہ پر پردہ پڑا ہوا ہے تو اُس کی پردہ پوشی ہی کی جانی چاہئے۔ کسی بھی فرد کے ایسے کسی بھی عمل کی وڈیو بنا کر اُسے ساری دنیا میں شیئر کرنا بہت گناہ کا کام ہے جس سے ہر کسی کو اجتناب کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کئی بار ایسی وڈیوز کے لئے نشانہ پر رکھے گئے شخص کو ٹریپ بھی کیا جاتا ہے تاکہ اُس کو ضرورت پڑنے پر پریشرائز کیا جا سکے۔
بہرحال صورت کوئی بھی ہو، دوسروں کے عیب کی وڈیو بنا کر وائرل کرنا گناہ کا کام ہے جس سے ہم سب کو بچنا چاہئے۔ میری ایک بہت بڑے عالمِ دین سے بات ہوئی تو اُنہوں نے میرے سوال پر کہا کہ اگر کسی کے پاس اس طرح کی وڈیو آ جائے تو اُسے آگے پھیلانے کی بجائے متعلقہ شخص سے شیئر کرے اور اُسے ایسے گناہ سے بچنے اور توبہ کرنے کی ترغیب دے۔ اگر ایسی وڈیو میں شامل فرد کوئی سیاستدان ہے، کسی اہم عہدے پر فائز ہے یا کسی ادارے بشمول تعلیمی ادارے یا مدرسے سے منسلک ہے تو ایسے فرد کے سربراہ یا کسی بڑے افسر یا منتظم کے سامنے یہ معاملہ رکھیں تاکہ ایسے شخص کو اُس عہدے یا ذمہ داری سے فارغ کر دیا جائے۔ اگر وڈیو وائرل ہو جائے جس طرح کے لاہور کے مدرسے کے ایک مفتی، چیئرمین نیب اور اب ن لیگ کے رہنما اور سابق گورنر سندھ زبیر عمر کی وڈیوز وائرل ہوئیں اور سب کو اس معاملہ کا علم ہو گیا تو ایسی صورت میں بھی اس وڈیو کو مزید پھیلانے کے گناہ سے تو بہرحال ہمیں بچنا چاہئے لیکن ریاست اور حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اس معاملہ پر قانونی کارروائی کرے کیوں کہ یہ گناہ یا جرم اس کے سامنے آ چکا۔ پہلے تو تحقیق کر لی جائے کہ وڈیو درست بھی ہے یا نہیں اور اگر درست ہو تو پھر قانون کے مطابق متعلقہ افراد کو پکڑا جائے اور قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ہم نے دیکھا کہ لاہور کے مدرسے سے تعلق رکھنے والے فرد کو تو فوری گرفتار کیا گیا
(جو ایک درست عمل تھا) لیکن چیئرمین نیب اور محمد زبیر عمر کے کیس میں ریاست اور حکومت خاموش ہیں۔ اگر مدرسے سے تعلق رکھنے والا شخص جرم ثابت ہونے پر سخت سزا کا مستحق، اس لئے ہے کہ ایک طرف تو اُس کا جرم سنگین تھا اور دوسرا یہ معاملہ معافی طلب اس لئے بھی نہیں کہ اُس فرد کو تو وہاں بچوں کو دینی تعلیم دینے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔جب گناہ اور جرم سامنے آ ہی گیا تو حکومت کو ایکشن لینا چاہئے تھا اور اُس نے لاہور مدرسے کے کیس میں ایکشن لیا بھی لیکن دوسرے دو کیسوں میں مبینہ گناہ اور جرم سامنے آ گئے ہیں اور ریاست ، حکومت خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ چیئرمین نیب اور محمد زبیر کی وڈیوز اگر درست ہیں تو پھر چوں کہ معاملہ عام ہو چکا اس لئے اُن کے خلاف بھی وڈیو کے صحیح ثابت ہونے پر ایکشن ہونا چاہئے اور جو بھی قانون میں ایسے گناہ اور جرم کی سزا موجود ہے وہ اُنہیں بھی ملنی چاہئے۔ اس معاملہ پر ن لیگ کی قیادت کو بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے تحقیقات کرنی چاہئے اور اگر یہ وڈیو درست ہے تو زبیر کو پارٹی سے نکال دیا جانا چاہئے۔ باقی جہاں تک اس معاملہ کے تناظر میں مرد اور عورت کی مرضی پر گناہ کو اگر کوئی Justifyکرتا ہے تو پھر ایسا عمل مغربی معاشرہ میں تو قابلِ قبول ہو سکتا ہے ، ایک اسلامی معاشرہ میں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہمارے آئین کے مطابق صدر وزیر اعظم، مسلمان وزیر مشیر، گورنر وزیراعلیٰ، ممبران قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو باعمل مسلمان ہونا چاہئے، وہ کوئی بھی بڑا گناہ کرنے کی Reputeنہ رکھتے ہوں، اسلام کے بارے میں کافی معلومات رکھتے ہوں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے لئے بھی ضروری ہے کہ اُن کا کردار بہترین ہو لیکن افسوس کہ ہمارے ایوانِ اقتدار، اسمبلیوں اور اعلیٰ عہدوں پر بیٹھنے والوں کے کردار کے معاملہ میں خرابی کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جو بہت غلط بات ہے۔