انہیں دیکھ کر لگا ہم آسان زندگی گزار رہے ہیں!!! ماہی گیر خواتین کی زندگی کتنی مشکل ہے جنہیں پورے ہفتے صرف اتوار کا انتظار رہتا ہے
لاہور: (ویب ڈیسک) ساحل سمندر کا دلکش نظارہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر سورج کی سنہری کرنیں سمندری ہوائیں ایک تازگی کا احساس دلاتی ہیں۔ ہمارے لیے تو یہ ایک پر فضا تفریحی مقام ہے- جی میں آیا کہ پتہ کریں یہاں کے رہائشی کس قسم کی زندگی گزارتے ہیں- یہ جاننے کے لیے ہم نے ایک ماہی گیری گاؤں کاکا پیر کا چناؤ کیا جو کہ پندرہ کلومیٹر کراچی کے مغرب میں واقع ہے۔
انتہائی سادہ اور نرم مزاج اور صابر لوگ، جسمانی لحاظ سے انتہائی سخت جان کیونکہ اس علاقے کی سختیوں کو جھیلنا کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں- جن کو بنیادی سہولیات بجلی، پینے کا میٹھا پانی بھی میسر نہیں۔ دو سو روپے فی ڈرم ادا کرنا ایک چیلنج ہے جبکہ ان کے گھر غربت اور پسماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن وہ خوش ہیں مجھے ان لوگوں کی زندہ دلی،
مہمان نوازی اور تشکر کی عادت نے متاثر کیا۔ ایک رہائشی زبیدہ خاتون علاقے کے مسائل کے بارے میں بتاتی ہیں کہ گیس پانی کی سہولت نہیں گھر خستہ حال ہیں بارشوں میں بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ستمبر سے اپریل تک تو ان کا ماہی گیری کا کاروبار چلتا ہے لیکن مئی سے لے کر اگست تک ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ سمندر میں طغیانی ہوتی ہے۔ ان کو شکار کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ سمندر ان مہینوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ ان فارغ مہینوں میں یہ خیمے /ٹنٹ بناتے ھیں اور پکنک پر آنے والے لوگوں کو کرائے پر دیتے ھیں۔
اس کا معاوضہ فی ٹینٹ ہزار روپے ہوتا ہے۔ اس ہزار روپے کی کمائی سے دو سو کراچی پورٹ ٹرسٹ کو بھی ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یہ کاروبار ان کا اتوار کے اتوار ہی چلتا ہے۔ یوں پورا ہفتہ وہ اس اتوار کا انتظار کرتے ہیں۔ اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں کچھ خدا ترس انسان راشن بٹوا دیتے ہیں تو ان لوگوں کا چولہا جلتا رہتا ہے- بےشک پالنے والا تو اوپر ہے۔ ایک اور بڑی دلچسپ کہانی سننے میں آئی اس کا ذکر یہاں لازمی کرنا چاہوں گی۔ ایک خاتون زلیخہ اپنی ماں کے بارے میں بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں ان کی ماں حلیمہ نے مردوں کے مدمقابل ماہی گیری کرتے ہوئے انتہائی محنت اور حلال کی کمائی کے ساتھ اپنے بچوں کو پالا-
شوہر کی بیماری نے اسے کمزور نہیں ہونے دیا۔ وہ صبح فجر کے وقت نکلتی اور دن کے ایک بجے واپس لوٹتی- اس دوران اس کی ماں بچوں اور گھر کا خیال رکھتی- بلاشبہ اس کی بستی والوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ عموماً دریا میں تو کشتی چلانا آسان ہے لیکن سمنر میں چلانا بہت جان جوکھوں کا کام ہے۔ وہاں لوگوں نے بتایا کہ حلیمہ کو دیکھتے ہوئے ایک اور عورت (جیوھو) نے بھی شوقیہ یہ کام شروع کیا اور ساری زندگی اپنے شوہر کا ہاتھ بٹاتی رہی۔
ایک دفعہ کشتی میں خرابی کی وجہ سے یہ دونوں میاں بیوی اپنے علاقے سے دور سمندر میں پھنس گئے گاؤں والوں کو مغرب کے وقت خیال آیا تو وہ ریسکیو کے لیے بھاگے۔ عموماً یہ لوگ مچھلیوں کی تلاش میں اپنے علاقے سے دور منوڑہ، پسنی، گوادر تک چلے جاتے ہیں۔ سننے میں تو یہ ایک ایڈونچر لگتا ہے لیکن بغیر کسی سہولیات کے خستہ حال کشتیوں پر اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر حلال کمائی کے لیے نکلنا کسی معرکے سے کم نہیں۔ انہیں لوگوں کی بدولت ہم بہترین نسل کی مچھلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہیں تو اپنی محنت کا معاوضہ بھی بہت تھوڑا ملتا ہے۔ پوچھنے پر پتا لگا کہ ان کی تو ایک دن کی کمائی زیادہ سے زیادہ ہزار روپے ہوتی ہے۔
جبکہ یہ ہی ہم رستوران جائیں تو سب سے مہنگی ڈش مچھلی ہی ہوتی ہے۔ غرض ان لوگوں کی زندگیوں کو دیکھ کر لگا ہم تو بہت آسان زندگی گزار رہے ہیں۔ گو کہ ہم مہنگائی اور ناقص سہولتوں کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ شکایت ان لوگوں کو بھی ہے لیکن ان کے چہروں پر ایک اطمینان نظر آیا وہ جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر خوش ہیں کیونکہ وہ یہ کہتے ہیں رزق اللہ کی طرف سے ملتا ہے۔ لیکن دل کرتا ہے کم از کم ان لوگوں کو پینے کا میٹھا پانی تو میسر ھو کیونکہ ہم مہنگے داموں مچھلی کھاتے ہیں جو صرف ان ہی کی مرہون منت ہیں نصیب ہوتی ھے۔وہاں ایک خاتون نے شعر پڑھتے ہوئے بڑی اچھی بات کی انہیں کی زبانی۔ ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے۔ نصیب کی بات ہے دکھ سکھ تو اللہ کی طرف سے ہےجب تک زندہ ہیں ان کا سامنا کرنا ہے منہ نہیں موڑ سکتے۔ بس شکر الحمدللہ!!!