بھائی یہ جائے نماز تو رہنے دو میں اس پر نماز پڑھتا ہوں۔۔۔۔
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوستو، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پولیس کمانڈو سلیکشن انٹرویو کے دوران امیدوار سے کہا گیا کہ۔۔ ہمیں ایسے لوگ چاہئیں،جن کا دماغ ہمیشہ مشکوک، چوکنا، بے رحم، حملے کیلئے تیار، تیز قوت سماعت، کھوجی طبیعت
اور خطرناک فطرت رکھتا ہو۔ امیدوار معصومیت سے بولا۔۔مینو چھڈو،،، میری بیوی رکھ لوو فیر۔۔ویسے یہ بات بھی سوفیصد حقیقت ہے کہ دوسرے ممالک میں کوئی مسئلہ بن جائے تو لوگ کہتے ہیں پولیس کو بلائیں۔ لیکن پاکستان میں لوگ کہتے ہیں۔۔ چھیتی چھیتی گل مکاؤ، جے پولیس آ گئی تے کم ودھ جانا جے۔۔باباجی جب غصے میں کسی سے لڑبیٹھے تو پنجابی زبان میں شروع ہوجاتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چھڑانے والوں کو پکڑ کر زور،زور سے کہہ رہے ہوتے ہیں۔۔مینوچھڈو، مینو چھڈو۔۔یعنی مجھے چھوڑو پھر بتاتا ہوں میں اسے۔۔ساتھ ساتھ وہ پنجابی کی وہ مغلطات ”کڈ“ رہے ہوتے ہیں کہ سمجھنے والاکانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے۔۔مغلطات پر یاد آیا، آپ لوگوں نے اکثر طوطے کو انسانی آواز کی نقل کرتے دیکھا ہوگالیکن اب آسٹریلیا میں ایسی بطخ سامنے آئی ہے جو انگریزی میں مغلطات دیتی ہے۔۔یہ بطخ دروازہ بند ہونے کی آواز نکال سکتی ہے، انسانوں کی طرح کھانستی ہے اور اب تازہ واردات یہ ہے کہ بہت واضح انداز میں ’یوبلڈی فول‘ کہہ سکتی ہے۔ اس سے قبل یہ خاصیت صرف بعض اقسام کے طوطوں اور کچھ پرندوں میں پائی گئی تھی۔یہ بطخیں بطورِ خاص آسٹریلیا کے پانیوں میں تیرتی رہتی ہیں۔ نوجوان بطخیں اپنے بزرگوں سے تیز آواز والی سیٹیاں بجانا سیکھتی ہیں۔ اگر انہیں پالا جائے تو وہ انسانوں سے بھی آوازیں سیکھتی ہیں لیکن اب تک الفاظ ادا کرنے کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا تھا اور اب ایک بطخ پورا جملہ بول سکتی ہے۔مسک بطخوں کا حیاتیاتی نام (بیزیؤرا لوباٹا) ہے جو اب آواز سیکھنے اور بولنے کی حیرت انگیز خاصیت کی بنا پر اب طوطوں،
وھیل، ہمنگ برڈ اور خود انسانوں کی فہرست میں شامل ہوچکی ہے۔ یعنی بچپن میں وہ جو کچھ سیکھتی ہیں انہیں بول سکتی ہیں۔یہ تحقیق لائڈن یونیورسٹی کے پروفیسر کالٹین کیٹ اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ آوازوں کا سیکھنا اور ادائیگی ایک نایاب خاصیت ہے جو اب بطخوں کو خاص الخاص بناتی ہے۔پروفیسر کالٹین کو جب آسٹریلیا کی بطخ کا معلوم ہوا تو انہوں نے وہاں ایک مشہور سائنسداں پیٹر جے فلاگر سے رابطہ کیا جس نے 30 برس قبل ایسی ہی بطخوں کو سادہ الفاظ ادا کرتے سنا تھا۔ ڈاکٹر پیٹر نے تمام بطخوں سے الگ کرکے ایک نر بچے کو پالا جو چار سال کا ہے۔ اسے رِپر کا نام دیا گیا ہے۔ یہ غصے میں اول فول الفاظ بھی ادا کرتا ہے اور مادہ کو لبھانے کیلیے دروازے کی آواز کی نقل اتارتا ہے۔سن دوہزار میں انہوں نے ایک دوسری قسم کے بطخ ’پیسفک بلیک ڈک‘ کے بچے کو پالا اور بہت جلد اس نے عام سیاہ بطخوں جیسی آواز نکالنا شروع کردیں جو ایک اور حیرت انگیز عمل تھا۔ اس معلومات کے بعد پروفیسر کالٹین نے خاص سافٹ ویئر بنائے اور بطخوں کی مکمل جائزہ لیا۔ انہوں نے بطورِ خاص غور کیا کہ اپنی زندگی کے ابتدائی چند ہفتوں کو بطخ کے بچے کس طرح کی آوازیں سنتے ہیں اور ان پر کس طرح کا ردِ عمل دیت ہیں۔ انکشاف ہوا کہ بطخوں نے چار چار سیکنڈ کے وقفے سے درجنوں مختلف آوازیں خارج کیں۔ تو اس کی تصدیق ہوئی کہ یہ بطخیں بہت چھوٹی عمر میں نئی آوازیں سیکھنا شروع کردیتی ہیں
اور یوں ان میں مہارت بڑھتی جاتی ہے۔ لیکن ایک وقت یہ آیا کہ انہوں نے مسک بطخ کے حلق سے پونی گھوڑے کی ہنہناہٹ سنی، انہیں کھانستے ہوئے سنا اور آخر میں ایک نر بطخ نے یو بلڈی فول کہا جو واضح طور پر سنا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ مسک بطخیں پانی میں آزاد رہنا پسند کرتی ہیں قید میں وہ بہت غصیلی ہوجاتی ہے اور نئی آوازیں سیکھ کر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔یہ تحقیق فلاسفیکل ٹرانزیکشنس آف دی رائل سوسائٹی کی تازہ اشاعت میں شامل کی گئی ہے۔۔ اب آپ یہ سب پڑھ کر کہہ رہے ہوں گے۔۔مینو چھڈو۔۔ویسے حکومت کا جو حال چل رہا ہے، اسے دیکھ کر ہر شہری یہی کہہ رہا ہے کہ۔۔مینو چھڈو۔۔ سانوں چھڈو۔۔اس حکومت کے دور میں کاروبار کا حال بھی کچھ یوں ہوگیا ہے کہ۔ ایک فرم کے مالک نے دوسری فرم کے مالک سے پوچھا۔۔سناؤ بھئی کاروبار کیسا چل رہا ہے۔۔۔اس نے جواب دیا۔۔ ”ففٹی ففٹی۔“۔۔۔”کیا مطلب؟“۔۔ دوست کہنے لگا۔۔”صبح ایک آرڈر ملتا ہے، شام کو ایک آرڈر کینسل ہوجاتا ہے۔“۔۔نوکری کیا ہوتی ہے؟ باس نے لطیفہ سنایا،سارا اسٹاف ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا۔۔ سوائے ایک شخص کے جس کے چہرے پر کوئی تاثر ہی نہیں تھا۔۔باس نے پوچھا کیا ہوا لطیفہ سمجھ نہیں آیا۔اس نے کہا کہ سمجھ آگیا ہے لیکن۔۔ میں استعفیٰ دے چکا ہوں۔۔ایک گھر میں لٹیرا گھس گیا، اس نے ہتھیار کے زور پر لوٹ مار شروع کر دی۔۔ گھر کا مالک لٹیرے سے کہنے لگا۔۔اتنی ساری چیزیں لوٹ گئے ہو۔یہ جائے نماز تو رہنے دو اس پر میں نماز پڑھتا ہوں۔۔لٹیرے نے مڑکر غورسے مالک کودیکھا اور کہنے لگا۔۔ کیا میں مسلمان نہیں؟ صرف تم نماز پڑھتے ہو۔؟؟
ایک دوست نے دوسرے سے کہا۔۔ میں نے ایک مشروب تیار کیا ہے۔ تم آزمانا پسند کرو گے۔۔دوست بولا، کیسا ہے مشروب؟؟ پہلا دوست کہنے لگا۔۔اسے پیتے ہی آدمی بالکل سچی بات کہتا ہے۔۔دوسرے دوست نے مشروب کا ایک گھونٹ لیا اور فورا ہی تھوک دیا،کہنے لگا۔۔اخ تھو، یہ تو نیل گھولا ہواہے پانی میں۔۔ پہلا دوست مسکرا کر بولا۔۔تم نے سچ کہا۔ پانی میں نیل ہی گھولا ہے۔۔ٹیچر نے بچے کی نوٹ بک پر ریمارکس لکھے۔پڑھائی میں اچھا ہے، مگر لڑکیوں میں زیادہ رہنا پسند کرتاہے، میں ایک طریقہ استعمال کرنے والی ہوں امید ہے ٹھیک ہوجائیگا۔۔ماں نے ریمارکس پڑھے تو ٹیچر کو لکھا۔۔ شکریہ اگر کام بن جائے تو مجھے بھی بتانا میں وہ طریقہ اسکے والد پر استعمال کرونگی۔باباجی کی زوجہ ماجدہ ایک دن ان سے لڑرہی تھیں کہ۔۔ چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی ہوتی ہوں، کام ختم ہی نہیں ہوتے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ آپ کی طرح نہ تو کبھی سالانہ انکریمنٹ لگتی ہے اور نہ ہی پروموشن ہوتی ہے۔۔باباجی کہنے لگے۔۔ میری انکریمنٹ لگے یا پروموشن ہو، ظاہر ہے سب کچھ تمہارا ہی ہے لیکن پھر بھی تمہارے دونوں گِلے دور کر دیتا ہوں،ہر سال تمہاری پاکٹ منی میں ایک ہزار کا اضافہ ہوگا۔زوجہ ماجدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ڈن ہو گیا،اب پروموشن کی بات کریں۔۔ باباجی بولے۔۔ میری کسی بیس بائیس سال کی جوان بیوہ سے شادی کرا دو، تم سینئر ہو جاؤ گی اور وہ جونیئر اور ثواب فری میں ملتا رہے گا۔ اب زوجہ ماجدہ پروموشن لینے سے بھی انکاری ہیں اور نعوذ باللہ ثواب کمانے سے بھی۔۔باباجی جب بھی پروموشن اور انکریمنٹ کا پوچھتے ہیں تو آگے سے کہتی ہیں۔۔مینو چھڈو۔۔اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لوگ آپ سے نہیں، آپ کی حیثیت سے ہاتھ ملاتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔