انتہائی غریب خاندان!!!! کوئٹہ کی ماریہ شمعون کی اسسٹنٹ کمشنر بننے کی کہانی جس نے ہمت نہ ہاری
لاہور: (ویب ڈیسک) ’ہمارے والدین نے ہمارے لیے اچھا گھر نہیں بنایا اور نہ ہی اچھے کپڑے خریدے بلکہ ان کے پاس جو کچھ تھا وہ ہماری تعلیم پر لگایا جس کے نتیجے میں ہم تمام آٹھ بہن بھائی نہ صرف امتیازی نمبروں سے پاس ہوتے رہے بلکہ تمام کے تمام اچھی ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘
یہ الفاظ کوئٹہ کی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی ماریہ شمعون کے ہیں جنھوں نے اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن افسروں کی آسامیوں کے لیے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے حالیہ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میں خدا کی شکر گزار ہوں جس نے میری دعائیں اور عبادتیں قبول کیں۔ اس کے بعد تمام کریڈٹ میرے والدین کو جاتا ہے اور میں ان کو سیلوٹ پیش کرتی ہوں۔’ وہ کہتی ہیں کہ ’ناکامی کا سامنا بہت کرنا پڑا لیکن والدین اور بہن بھائیوں کی حوصلہ افزائی سے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری اور ہر بار پہلے سے زیادہ محنت کی جس کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹ کے لیے امتحان میں پاس ہونے والے امیدواروں میں پہلے نمبر پر آئی۔‘ ماریہ کہتی ہیں کہ میرے والد ڈرائیور تھے جبکہ والدہ بھی ان کو ہیلپ کرنے کے لیے ملازمت کرتی تھیں۔ ’ہمارا خاندان بڑا تھا لیکن کم آمدنی کے باوجود والدین نے تین بھائیوں سمیت آٹھ بچوں کو پڑھانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘ ‘کوئی ہمارا گھر آ کر دیکھے تو اس کی حالت اتنی اچھی نہیں۔ انھوں نے ہماری آسائش پر بہت زیادہ خرچے نہیں کیے لیکن سب کچھ ہماری تعلیم پر لگا دیا۔’انھوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے میں اپنے خدا کی شکر گزار ہوں۔ فرنٹ پر ہم بہن بھائی ہیں لیکن ہمارے اصل ہیروز ہمارے والدین ہیں۔ میرے والدین بہت وژنری تھے۔ وہ ہمیں اپنا اصل سرمایہ سمجھتے تھے۔ ’ان کی سوچ تھی کہ بچوں پر سرمایہ لگائیں گے تو کل وہ کچھ بنیں گے۔ گھر وغیرہ بعد میں بھی بن سکتے ہیں یا باقی آسائشیں بعد میں حاصل کی جا سکتی ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ہم آٹھ بہن بھائیوں میں سے پانچ گریڈ 17 کے افسر ہیں جبکہ باقی بھی اچھی پوزیشنوں پر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے والدین کو اس لیے وژنری اور ہیرو کہتی ہوں کہ انھوں نے انسانی وسائل پر سرمایہ کاری کی اور اس کے علاوہ میں اپنی سہیلی ثنا کاظمی کو بھی کریڈٹ دیتی ہوں جنھوں نے پڑھائی میں میری بہت مدد کی۔ ماریہ شمعون کا کہنا تھا کہ ہماری والدہ کی لکھنے پڑھنے کی بہت خواہش تھی لیکن وہ نہیں پڑھ سکیں۔’والد کی طرح والدہ نے بھی ہماری تعلیم کی جانب بہت زیادہ توجہ دی کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ وہ نہیں پڑھ سکیں تو ان کے بچوں کو اچھی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔‘ ماریہ شمعون نے بتایا کہ ایف ایس سی میں جو بھی پری میڈیکل میں داخلہ لیتا ہے تو اس کے سامنے ایک سوچ ڈاکٹر بننے کی ہوتی ہے اسی طرح کی سوچ میری بھی تھی لیکن اس وقت میرا وژن بہت زیادہ نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’جب مجھے ایم ایس سی میں میری محنت کا صلہ گولڈ میڈل کی شکل میں مل گیا تو میرا حوصلہ بڑھ گیا اور بہن بھائیوں اور دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ سی ایس ایس کریں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مجھے اپنی محنت کی وجہ سے یہ اعتماد تھا کہ میں سی ایس ایس کر سکتی ہوں لیکن تین کوششوں کے باوجود میں سی ایس ایس نہیں کر سکی۔
’ان ناکامیوں کے باوجود جہاں میں نے ہمت نہیں ہاری وہاں مجھے والدین اور دیگر لوگ حوصلہ دیتے رہے کہ ابھی تک مواقع بہت ہیں۔ اس لیے میں نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن سے بھی اسسٹنٹ کمشنر بننے کی کوشش کی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ہر ناکامی کے بعد مایوسی بہت زیادہ ہوتی تھی لیکن خدا سے دعائیں کرتی اور روزہ رکھتی تھی جس کی وجہ سے مایوسی غالب نہیں آتی تھی اور مجھے پھر سے محنت کرنے کا حوصلہ مل جاتا تھا۔ ‘میرا یقین تھا کہ خدا انصاف کرے گا اور میری محنت کا صلہ ضرور دے گا۔ میں ایک کمزور لڑکی نہیں بننا چاہتی تھی کہ جو رو کر شکست قبول کرتی۔ میں نے عزم کیا تھا کہ میں نے ہر حال میں اسسٹنٹ کمشنر بننا ہے۔’
انھوں نے بتایا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں بھی دو بار ناکام ہوئی لیکن ہمت اور حوصلے کا دامن نہیں چھوڑا اور آخری موقع کے لیے پہلے سے بہت زیادہ محنت کی جس میں کامیابی حاصل کی۔ ماریہ کہتی ہیں کہ خدا نے میری کوششوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا بلکہ آخری مرتبہ جو نو امیدوار اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن افسر کے عہدوں کے لیے کامیاب ہوئے ان میں میں اول نمبر پر آئی۔ ‘ان نو امیدواروں میں سے مجھ سمیت دو امیدواروں کی سلیکشن اسسٹنٹ کمشنر اور سات کی سیکشن افسر کے طور پر ہوئی اور ان سب میں میں واحد خاتون تھی۔’ ماریہ شمعون کون ہیں؟ ماریہ شمعون کا تعلق کوئٹہ شہر کے ایک غریب اور متوسط گھرانے سے ہے۔ ان کے والد شمعون مسیح کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈرائیور رہے اور 2016 میں ریٹائر ہوئے۔
غربت کے باعث نہ صرف ماریہ شمعون بلکہ ان کے تمام بہن بھائی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکے بلکہ تمام نے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ ماریہ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سیٹلائٹ ٹاﺅن کوئٹہ سے حاصل کی۔ ایف ایس سی پری میڈیکل سائنس میں گورنمنٹ گرلز کالج سیٹلائیٹ ٹاﺅن سے جبکہ بی ایس سی گورنمنٹ گرلز کالج کواری روڈ سے کی۔ایم ایس سی کے لیے انھوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان میں داخلہ لیا اور بائیو کمیسٹری میں ایم ایس سی کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ماریہ کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ سی ایس ایس کر کے ایڈمنسٹریٹو سروس میں آئیں لیکن وہ ممکن نہیں ہو سکا
لیکن اب وہ محسوس کر رہی ہیں کہ خدا جو کچھ کرتا ہے وہ بہتر کرتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ‘پی سی ایس کے ذریعے ایڈمنسٹریٹو سروس میں آنے سے انھیں جو عزت ملی وہ شاید سی ایس ایس کے ذریعے بھی نہ ملتی۔ مجھے اپنے شہر اور بلوچستان بھر سے بہت زیادہ پزیرائی اور عزت ملی ہے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے والد نے کہا کہ یہ بات میری سوچ سے باہر تھی میں کسی اسسٹنٹ کمشنر کی باپ بنوں گا۔‘ ماریہ شمعون نے کہا کہ جب بلوچستان پبلک سروس کمیشن نے نتائج کا اعلان کیا تو اس وقت میں گھر میں موجود نہیں تھیں۔ ‘مجھے کامیابی کی اطلاع باہر ملی لیکن جب میں گھر پہنچی تو گھر میں جشن کا سماں تھا۔ میں نے دیکھا کہ والدین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ انھوں نے مجھے گلے لگالیا اور بہت زیادہ پیار کیا۔’
ماریہ شمعون نے کہا کہ اس وقت اپنے والدین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہیں رہی اور میں نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ اس عمر میں اپنے والدین کو خوشی کے آنسو دے سکی۔‘ انھوں نے کہا کہ ‘میرے والد بہت خوش تھے۔ والد نے کہا کہ میں تو ایک ڈرائیور تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کا باپ بنوں گا یا میں کسی اسسٹنٹ کمشنر کا باپ ہوسکتا ہوں۔’ انھوں نے بتایا کہ میرے خاندان کے لوگوں کے چہروں پر جو خوشی تھی اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں
اور جذبات کو الفاظ میں بیان بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ’والدین کی طرح ہماری کمیونٹی میں بھی اس کامیابی پر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا گیا اور خوشی کے اظہار کے طور پر چرچ میں تقاریب ہوئیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہاں مجھے ہار پہنایا گیا اور کیمونٹی کی جانب سے بہت سارے تحفے اور تحائف دیے گئے۔ بیٹی کی اسسٹنٹ کمشنر بننے پر ماریہ کے والد شمعون مسیح اور والدہ انتہائی خوش ہیں۔ شمعون مسیح کا کہنا تھا کہ ‘خدا نے میری محنتوں کو بارآور کیا۔ خدا نے مجھے سرفراز کیا کہ میری بیٹی آج اسسٹنٹ کمشنر بن گئی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو پڑھانے پر مجھے کافی مالی مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ’ان پریشانیوں اور مشکلات میں میری اہلیہ نے میرا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے آج ہمارے بچے کامیاب ہوئے۔‘ ماریہ کی والدہ کہتی ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں اس لائق کیا اور ہمارے بچوں کو اس قابل بنایا کہ آج ہم ان پر ہم فخر کر سکیں۔