سیٹھ عابد نے کون سا طریقہ استعمال کرکے اپنا سونےکاکاروبار ایک چھوٹی سی دوکان سے پانچ ملکوں تک پھیلا دیا تھا جان کر آپ بھی کہیں گے، 50کی دہائی میں بھی ایسے لوگ تھے؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستانی تاریخ کے پُراسرار کردار سیٹھ عابد کےوالد نے1950میں کراچی میں سونے کا کاروبار شروع کیا۔ اپنے والد کے ساتھ کاروبارسنبھالتے ہی سیٹھ عابد نےسم گل نگ کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہوئےیہ سوچ لیا تھا کہ انھیں ایک دوکان تک محدود نہیں رہنا، بلکہ سرحدیں پار کرنی ہیں۔
جس کےلئے انھوں نےمکمل پلان تیارکیا۔انھوں نے کراچی کے ایک ایسے ماہی گیرکی خدمات حاصل کیں، جو دبئی سے سونا سم گل کرکے لاتا تھا۔ ادھر سیٹھ عابد نے اپنے آبائی علاقے قصور اور سرحد ی علاقوں میں مقیم گھرکی ،دیال اور اعوان برادری کے لوگوں کو سونے کی سم گل نگ کی ایک فرنچائزدے ڈالی۔یوں سیٹھ عابد کانیٹ ورک دبئی سے کراچی، کراچی سےپنجاب کے سرحدی علاقوں اور وہاں سے دلی تک پھیل گیا۔
سیٹھ عابد نے اپنے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے حکومتی شخصیات اور کئی اداروں کے افسران سے بھی میل ملاپ کر لیا۔ ۔دبئی میں سیٹھ عابد کے بہنوئی حاجی اشرف نے اس نیٹ ورک کو سنبھالا ہوا تھا۔ دبئی سے کراچی سم گل نگ کاکام قاسم بھٹی نامی ایک ماہی گیر کرتا تھا،اور ادھر پنجاب سے سونا دلی سم گل کرنے کا کام حاجی اشرف کاداماد غلام سرور کرتا تھا جو دلی کے سونے کے مشہور تاجر ہربنس لال سے قریبی تعلقات قائم کیے ہوئے تھا۔جبکہ برٹش ائیر ویز میں کام کرنے والا ایک ملازم چارلس میلونی سونالندن پہنچانے میں ایک سہولت کار کا کام کرتا رہایوں یہ نیٹ ورک برطانیہ تک پہنچ گیا۔ ہر سا ل حج پر جانے والے سیٹھ عابد نے سعودی عرب میں بھی وہاں کے شیخ آپریٹرز کے ساتھ معاملات آگے بڑھا لیے۔
اس سارے سلسلے میں سیٹھ عابد کو مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے 1963میں ایک خبر شائع کی جس کے الفاظ تھےپاکستان کے ’گولڈ کنگ‘ کے انڈیا میں ’روابط‘ ہیں جبکہ ان کے بہنوئی کو دلی میں سونے کی 44 اینٹوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سیٹھ عابد دہلی، لاہور، کراچی،دوبئی اور لندن میں اپنے کاروبار کی وجہ سے پاکستان کی دولت مند ترین شخصیات میں شمارہونے لگ گئے تھے۔ سیٹھ عابد کا کراچی میں انتقال ہو گیا ، اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا کرے ۔پاکستانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کو دیکھا جائے۔
تو سیٹھ عابد کے بارے میں کچھ اور کہانیاں بھی گردش کرتی نظر آتی ہیں۔ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’جب امریکی حکومت نے پاکستان پر ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ درآمد کرنے پر پابندی عائد کی تو یہ سیٹھ عابد ہی تھے جنھوں نے فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ بحری راستے سے پاکستان پہنچایا تھا۔‘اس کے علاوہ سیٹھ عابد کا نام نومبر 2006 میں اس وقت بھی خبروں میں آیا تھا جب ان کے بیٹے حافظ ایاز کو ان کے محافظ نے لاہور میں زندگی سے محروم کر دیا تھا۔
اس کے بعد گذشتہ کئی برس میں سیٹھ عابد کا نام زیادہ نہیں سنا گیا تاہم 2019 ءمئی میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تقریب میں سیٹھ عابد کا ذکر شارجہ میں پاکستان انڈیا کے کرکٹ میچ کے تناظر میں کیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’سیٹھ عابد نے شوکت خانم ہسپتال کی بہت مدد کی تھی۔
‘ذرائع کے مطابق کراچی کا صرافہ بازار کسی زمانے میں ”کامل گلی“ میں ہوا کرتاتھا . اسی صرافہ بازار میں پاکستان کے نامور بزنس مین سیٹھ عابد کے والد کی دکان بھی ہوا کرتی تھی۔