پڑھی لکھی اولاد ماں باپ کا فخر تو ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ماں باپ کے کسی کام کی نہیں رہتی سبق آموز تحریر
حاجی صاحب آپ کی بات سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا مجھے ایسے لگا جیسے آسمان میرے سر پر گر پڑا اور زمین میرے پیروں سے کھسک گئی میں نے دوبارہ پوچھا ”حاجی صاحب کیا کہا آپ نے؟“۔ حاجی صاحب نے مکمل اطمینان سے وہی جواب دیا”میں راشد کو بدمعاش بنانا چاہتا
حاجی صاحب آپ کی بات سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا مجھے ایسے لگا جیسے آسمان میرے سر پر گر پڑا اور زمین میرے پیروں سے کھسک گئی میں نے دوبارہ پوچھا ”حاجی صاحب کیا کہا آپ نے؟“۔ حاجی صاحب نے مکمل اطمینان سے وہی جواب دیا”میں راشد کو بدمعاش بنانا چاہتا ہوں“۔
حاجی صاحب کو میں 20 سال سے جانتا ہوں۔ انتہائی ڈیسنٹ انسان ہیں۔ریٹائرڈ بینک آفیسر ہیں۔ انتہائی شریف انسان انسان کبھی کسی کو ضرر نہیں پہنچایا ماشاء اللہ چار بیٹوں کے باپ ہیں۔ بڑا بیٹا لندن میں انجینئر ہے، دوسرا امریکہ میں ڈاکٹر ہے اور تیسرا کینیڈا میں پائلٹ ہے جبکہ چوتھا بیٹا راشد پاکستان میں ہی حاجی صاحب کے ساتھ رہتا ہے راشد پرلے درجے کا نکما انسان ہے آوارہ دوستوں کے ساتھ گھومتا ہے
ایک دو بار جیل بھی جا چکا ہے آج اتفاقاً حاجی صاحب سے ملاقات ہوگئی تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ راشد کو کیا بنانا چاہتے ہیں۔ حاجی صاحب کا جواب میرے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ وجہ پوچھی تو بے اختیار ہنس پڑے ”یار اُس کی بدمعاشی کی وجہ سے میرے بہت سارے مسئلے خودبخود حل ہوگئے ہیں، ویسے بھی کم بخت ہے تو آوارہ لیکن سستے جذبات اُس میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں“۔میں نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا ”کیا مطلب؟“
حاجی صاحب دوبارہ ہنسے ”دیکھو! میں تو ٹھہرا بزدلی کی حد تک شریف انسان، بجلی کا پورا پورا بل بھرنے کے باوجود جب کوئی لائن مین مجھ سے آکر مشکوک انداز میں کہتا تھا کہ آپ کا میٹر کیوں آہستہ چلتا ہے؟ تو میں خوفزدہ ہو جاتا تھا اور قسمیں کھانے لگتا تھا کہ مجھے کچھ نہیں پتا مجھے جرمانے سے ڈرا دھمکا کر دو ہزار ہر ماہ لے جاتا تھا راشد نیوز کی ایسی طبیعت صاف کی کہ اب جب بھی آمنا سامنا ہو تو سلام لے کر چپکے سے نکل جاتا ہے۔
بازار میں ایک دفعہ ایک موٹر سائیکل والا غلط رخ پر آ رہا تھا، سیدھا مجھ سے ٹکرا گیا اور الٹا مجھے ہی گالیاں دینے لگا۔ راشد میرے ساتھ تھا۔ اس نے موٹر سائیکل والے کو دو تھپڑ لگائے اور موٹر سائیکل والا بے اختیار میرے قدموں میں گر گیا۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے ہمسائے اکثر اپنی گاڑی ہمارے گیٹ کے عین سامنے لگا جاتے تھے، میں نے ایک دو دفعہ اُن سے گذارش کی کہ ایسا نہ کیا کریں کیونکہ پھر ہمیں گیٹ کھولنے میں پریشانی ہوتی ہے لیکن انہوں نے الٹا مجھے برا بھلا کہا اور باز نہیں آئے۔ راشد نے ایک ہی دفعہ اُن کے دروازے پر جا کر کوئی بات کی۔ اُس کے بعد اُن کی گاڑی کبھی ہمارے گیٹ کے سامنے کھڑی نہیں ہوئی میں نے قہقہہ لگایا اور پوچھا کہ کیا آپ اپنے بیٹے کی بدمعاشی کو انجوائے کر رہے ہیں حاجی صاحب خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر میری آنکھوں میں دیکھتے رہے، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر قریبی دوکان کے تھڑے پر بیٹھ گئے اور بولے ”سچ پوچھو تو مجھے راشد کبھی اچھا نہیں لگا لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ کاش میں نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسا ہی بنایا ہوتا۔ میرا تینوں بیٹے پڑھے لکھے ہیں اعلی تعلیم یافتہ ہیں اپنے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بہت زیادہ خوش ہیں ہیں لیکن وہ ہم بوڑھے ماں باپ کو پوچھتے تک نہیں پڑھی لکھی اولاد ماں باپ کا فخر تو ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ماں باپ کے کسی کام کی نہیں رہتی۔“
حاجی صاحب نے اپنی آنکھوں کے کونوں سے آنسو صاف کیے اور بولے کہ میرا فیصلہ خود غرض ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ راشد پڑھے اور میرے پڑھے لکھے بیٹوں کے جیسا ہو جائے میں چاہتا ہوں راشد ان پڑھ رہے۔ وہ لفنگا اور آوارہ تو ہے لیکن رات کو میرے پیر بھی دباتا ہے۔ کوئی بھی چیز چاہیے ہو تو جھٹ سے لا دیتا ہے۔ یہ بچپن سے ہی ایسا تھا۔اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا لیکن گھر کے سارے کام یہی کرتا تھا۔ جب اس کے تینوں بڑے بھائی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور کتابیں کھولے پڑھ رہے ہوتے تھے۔تو یہی سبزی لاتا تھا۔ بڑے بھائی اکیڈمیوں میں چلے جاتے تھے اور یہ تنور سے روٹیاں لا دیتا تھا۔ میری گاڑی بھی یہی صاف کرتا تھا۔ اسے بڑے بڑے الفاظ نہیں آتے۔ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر مجھے حوصلہ دیتا ہے۔ فلمی انداز میں ڈائیلاگ مارتا ہے کہ ابو میرے ہوتے ہوئے آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میری دعا ہے کہ یہ سیکنڈ ایئر میں پھر فیل ہوجائے تاکہ نہ کبھی تعلیم حاصل کرے نہ ہمیں چھوڑ کر باہر جائے۔ پتا نہیں کیوں مجھے یقین ہے کہ یہ بدمعاش مرتے دم تک ہمارے ساتھ بھی رہے گا اور ہمارے بڑھاپے کا سہارا بھی بنے گا۔