وہ وقت جب جہانگیر خان ترین کو ان کے والد نے گھر سے نکال دیااور جائیداد سے عاق کردیا۔۔ان کو معافی کس نے دلوائی تھی اوریہ پورا معاملہ کیا تھا؟؟؟
لاہور(ویب ڈیسک) نامور سابق بیوروکریٹ اور مشہور کالم نگار شوکت علی شاہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں، جہانگیر ترین سید احمد محمود کے بہنوئی ہیں،
میری اس سے تھوڑی سی شناسائی تو اس وقت بھی تھی جب اس کے والدہ اللہ نواز ترین بلوچستان کے ڈی آئی جی پولیس تھے چونکہ اس وقت سارا صوبہ اےاور بی ایریا میں تقسیم تھا،
ا س سے پولیس کی عملداری صرف شہروں تک محدودتھی اور ایک ڈی آئی جی دونوں ڈویژنوں کوئٹہ اورقلات کو کنٹرول کرتا تھا۔ میں اس وقت اسسٹنٹ کمشنرقلات تھا، اکثر مارشل لاء حکام کی بلائی ہوئی
میٹنگوں میں ان سے ملاقات ہوتی۔ ترین صاحب نہایت ملنسار اور خوبصورت انسان تھے اور مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے۔ بدقسمتی سے یحییٰ خان نے 303افسروں کو نکالنے کی جو فہرست مرتب کی
اس میں ان کا بھی نام تھا۔ ملتان واپس آکر انہوں نے پیپسی کولا کی ایجنسی لے لی، کاروبار خوب چمکا، پھلا اور پھولا۔ (11) میں ملتان میں جب ڈپٹی کمشنر تعینات ہوا تو ان سے ملاقات ہوئی۔
یہ عجیب اتفاق تھا۔ اس وقت ان کا شمار ملتان کے کامیاب اور متمول تاجروں میں ہوتا تھا۔ایک دن سید احمد محمود ایک نوجوان کو لیکر میری رہائش گاہ پر آئے۔ لڑکا خوبرو تھا مگر حزن و ملال کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر مایوسی کی لوٹ چھائی ہوئی تھی۔
احمد تعارف کراتے ہوئے۔ شاہ صاحب! یہ میرا بہنوئی ہے۔ اس کا نام جہانگیر ترین ہے۔ اس کے والد نے ناراض ہوکر اسے عملاً جائیداد سے عاق کر دیا ہے۔ لودھراں والا زرعی ماڈل فارم بھی واپس لے لیا ہے۔ وجہ؟
اس نے میرے اور اپنے خالہ زاد ہمایوں اختر کے ساتھ مل کر نواب صادق قریشی کی لاہور والی پیپسی کولا کی فیکٹری خریدی ہے۔ بڑے ترین صاحب معترض ہیں کہ رشتہ داروں کو بزنس میں کیوں شریک کیا ہے۔ سید احمد محمود سے میرا پیار اور احترام کا رشتہ ہے۔
ان کے والد کی وفات کے بعد میاں نوازشریف انہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کے حق میں نہیں تھے۔ میں نے ایک خاص حکمت عملی سے میاں صاحب کے شکوک و شبہات کو دور کیا۔ انہیں ٹکٹ دلوایا اور الیکشن جیتنے کے بعد منسٹر ایکسائز ہو گئے۔ میں اس وقت ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان تھا۔ مخدوم الطاف کو اس بات کا اتنا قلق تھا کہ اس نے مرتے دم تک مجھ سے قطع تعلق کر دیا۔ (یہ ایک طویل اور دلچسپ قصہ ہے جس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنی زیرطبع سوانح عمری ’’شاہ داستان‘‘ میں کر دیا ہے۔ قصہ کوتاہ میں نے باپ بیٹے میں صلح کرا دی۔ بہت لوگوں کو علم ہے کہ جہانگیر ترین آج جو کچھ بھی ہے وہ احمد محمود کی وجہ سے ہے۔ یہ سیاستدان نہیں تھا۔ اس نے سیاست کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
ممبر قومی اسمبلی راجہ ریاض نے ایک مرتبہ شہباز گل پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا۔ یہ لائلپور سے ممبر یونین کونسل میں منتخب نہیں ہو سکتے۔ یہی بات جہانگیر ترین کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ ایک خوشگوار حادثے نے انہیں ممبر قومی اسمبلی بنا دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جب ممبر بننے کیلئے گریجوایشن کی قدغن لگائی تو احمد محمود غیر موزوں ہو گئے۔ انہوں نے اپنے حلقے سے ترین کو ممبر قومی اسمبلی بنا دیا۔ ان کے وارے نیارے ہو گئے۔ جب اسکے ذہن رسا کو شوگر مل لگانے کی سوجھی تو احمد محمود کی جمال دین والی میں وسیع و عریض زمین کام آئی۔ احمد محمود کے دادا مخدوم غلام میراں شاہ بہاولپور ریاست کے سب سے بڑے زمیندار تھے۔