ایک لاہوری بابا جی کی گوری چٹی میم سے ملاقات کا دلچسپ احوال
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر کا قصہ ہے کہ۔۔سردار جی کو آدھی رات کے وقت پولیس والوں نے روک لیا۔ پوچھا تو سردار نے بتایا کہ وہ فلاں سینما پہ فلاں فلم دیکھ کے آرہے ہیں۔
ایک پولیس والے نے کہا۔۔ سردار جی۔ مکمل اسٹوری سناؤ تب جانے دیں گے۔۔ سردار جی نہ چاہتے ہوئے بھی اسٹوری سنانے لگے۔ کافی زیادہ دیر ہوگئی تو سردار جی نے فلم کا اینڈ سنا کے کہا۔۔
ہن اجازت اے؟؟؟؟۔دوسرا پولیس والا بولا۔۔۔سردار جی، گانے تہاڈی پھپھی سنانے نیں۔۔۔باباجی ایک بار پیرس میں ایفل ٹاور کی سیرکررہے تھے کہ ایک خوبرو میم پر نظر پڑی،باباجی چونکہ ازلی دل پھینک ہیں اس لئے میم پر دل ہاربیٹھے،پریشانی کی بات تھی کہ بات کیسے کرے میم سے؟ باباجی کو اردو اور پنجابی کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی جب کہ میم صرف فرنچ جانتی تھی۔۔
باباجی کا دماغ ایسے موقعوں پر بہت تیزی سے کام کرتا ہے، انہیں اچانک ایک ترکیب سوجھی۔۔کاغذ پر پنسل سے چائے کا کپ بنایا اور میم کو دکھایا۔۔ میم نے دیکھا تو مسکرا کے ساتھ چل دی۔ریستوران میں بیٹھ کر باباجی نے پھر کاغذ پر کھانے کے برتن کی تصویر بنائی۔۔میم سمجھ گئی کہ باباجی نے کھانے کی پیشکش کی ہے، آفر قبول ہوئی اور کھانے آرڈر دے دیاگیا۔۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میم نے باباجی سے پنسل اور کاغذ لیا
اور ایک خوبصورت(پلنگ) بیڈ کی تصویر بنا کر باباجی کے سامنے کی تو باباجی شرم سے پانی پانی ہوگئے۔۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کریں؟؟ آخر ہمت کر کے ڈرتے ڈرتے میم سے کہنے لگے۔۔ توانوں کس طرح پتہ لگیا اے کہ میں فرنیچر دا کم کردا واں۔۔باباجی نے جب یہ واقعہ سنایاتو محفل میں موجود لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔۔ ہمارے پیارے دوست کو بھی اس پر ایک واقعہ یاد آگیا۔۔کہنے لگے۔۔
میں ایک پارک میں بیٹھا تھاکہ اچانک میرے کانوں سے ایک نسوانی آواز ٹکرائی۔۔ جسے بھی آئسکریم چاہیے وہ میرے پاس آجائیں۔۔اتنا سنتے ہی چھوٹے بچوں سے لے کر بڑے آدمی اور عورتیں اس کے پاس لائن لگا کر کھڑے ہو گئے جو لگ بھگ 25 سے زائد افراد رہے ہونگے۔۔۔مجھے تھوڑی شرم تو آئی پر آئسکریم کے لالچ میں جب اتنے لوگ کھڑے تو میں بھی شرم کو بھول کر آئسکریم کے لئے ان سب کے پیچھے لائن میں کھڑا ہو گیا۔۔
سب کو آئسکریم مل گئی جب میرا نمبر آیا تو اس نے پوچھا کون ہو تم؟؟؟بعد میں پتہ چلا وہ سب ایک ساتھ تھے اور پکنک منانے آئے تھے۔۔اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔کرکٹ سکھانے والے کی تنخواہ بتیس لاکھ روپے اور جو قرآن پاک سکھاتا ہے اس کی تنخواہ صرف دس ہزار روپے۔ایسی قوم پر زوال نہیں آئے گا تو پھر کیا آئے گا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔