کچھ حیران کن واقعات اور حقائق
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اشرف شریف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوئس برائون کی کتاب’’ڈانسنگ ڈولز آف لاہور‘‘ ہیرا منڈی کے طوائف پیشہ خاندانوں کے رہن سہن‘پیشہ وارانہ انداز اور سوچ کو اجاگر کرتی ہے۔لوئس برائون برطانیہ کی محقق اور سماجیات کی استاد ہیں۔وہ حیران رہ گئیں جب ایک چائے لانے
والا آٹھ نو سال کا بچہ لوئس سے گلے ملتے ہوئے غلط قسم کے ہوس بھرے رویے کا اظہار کرتا ہے۔وہ لکھتی ہیں کہ مقامی مسجد کے قاری صاحب بھلے آدمی ہیں‘کئی طوائفیں ان سے تعلق رکھنا باعث برکت تصور کرتی ہیں‘قاری صاحب بھی اپنی آشنا طوائف کے بچوں کو شفقت اور نیک نیتی سے تعلیم دیتے ہیں۔وہ بازار کے دلالوں کے ایک ڈیرے کا ذکر کرتی ہیں۔دلال جو طوائفوں کے باہمی جھگڑے نمٹاتے ہیں‘کوئی طوائف فرار ہو جائے تو نائیکہ کی مدد کرتے ہوئے اسے پکڑ کر واپس لاتے ہیں۔کوئی تماشبین جھگڑا کرے تو اسے سبق سکھاتے ہیں۔ڈیرے پر سرورآور اشیاء کے دور چلتے رہتے ہیں۔ جب یہ کتاب لکھی گئی اس وقت بازار کی کمسن اور اچھی شکل و صورت والی لڑکیوں کی عرب ممالک میں بڑی مانگ تھی۔مختلف پروموٹر ثقافتی طائفہ کے نام پر لڑکیاں عرب ممالک لے کر جاتے۔دستاویزات میں انہیں گلوکارہ یا رقاصہ لکھا جاتا۔منزل پر پہنچ کر دھندے سے جو کمایا جاتا اس کا حصہ پروموٹر کو دینے کے بعد ان فنکارائوں کے پاس معقول رقم جمع ہو جاتی۔یہی وجہ تھی کہ ہر نائیکہ اور طوائف ان پروموٹر ٹائپ افراد کی خدمت میں لگی رہتی۔ لوئس برائون نے ماہا نام کی ایک طوائف کو اپنا معاون چنا اور سارا دن اس کے ساتھ گزارتی۔لوئس برائون پانچ سال ہیرا منڈی میں رہی۔اس دوران اس نے یہاں کے لوگوں کے عقیدے کی جڑیں‘توہمات‘ جادو ٹونے پر اعتقاد اور ایک دوسرے کے گاہک توڑنے اور طوائف ثقافت میں پلنے والے دیگر طبقات تک کا مشاہدہ کیا‘اپنی تحقیق مکمل کر کے وہ واپس گئیں اور چند سال کے بعد لاہور آئیں
تو کئی جوانیاں ڈھل چکی تھیں اور کئی بچپن شباب پر آ چکے تھے۔کتاب اور اس کے موضوعات کا احاطہ کالم میں ممکن نہیں‘صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ سماج کی فکر اور شہر کے کچھ حصے اگر کسی وجہ سے تعفن زدہ ہو جائیں تو ان پر سائنسی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‘مسئلے کو سمجھنے کے لئے تحقیق کرنا پڑتی ہے‘رجحانات کے پس پردہ قوتوں کو سمجھنا پڑتا ہے۔ دادا جی ملنے آتے تو انہوں نے شکایت کی کہ ہم لوگ ان سے باتیں کرنے کی بجائے ٹیلی ویژن دیکھتے رہتے ہیں‘ہمیں اور ہمارے والدین کو گلہ ہے کہ بچے ہر وقت موبائل فون میں گھسے رہتے ہیں۔وزرائ‘محکموں کے سیکرٹری حضرات اور ہر سطح کے منتخب نمائندوں کے گھروں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔وجہ یہ کہ ہم نے گرائونڈ ختم کر دیے‘عمرو عیار کی زنبیل یہی موبائل فون رہ گیاہے جہاں بچہ جو چاہے کرے۔ہاں جس دوسری چیز نے نوجوانوں کو متوجہ کیا ہے وہ موٹر سائیکل ہے۔ہمارے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے وہ موبائل فون اور موٹر سائیکل سے ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے اس تجربے سے گزرے ہوں گے کہ اچانک آپ کے کمپیوٹر یا موبائل کی سکرین پر کسی ویڈیو کا لنک آ جاتا ہے‘کبھی یہ لنک اشتہار اور کبھی کسی فلم یا ڈرامے کے مختصر سین کی صورت میں ہوتا ہے۔اگر آپ نے اس کو کھول لیا اور کچھ دیر دیکھا تو پھر کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت پتہ چلا لیتی ہے کہ آپ کو اس طرح کا مواد پسند ہے۔
اس کے بعد ایسی ویڈیوز یا اشتہارات کی تعداد بڑھنے لگے گی۔آپ کے ساتھ اگر یہ سب ہو چکا ہے تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ ان ویڈیوز میں کھلے ڈلے موضوعات اور بازاروں‘پارکوں میں ذومعنی سوال کرتی ٹک ٹاکر لڑکیاں کافی زیادہ فالوورز رکھتی ہیں۔ان کے فالوورز کی تعداد لاکھوںمیں ہے۔ہم جس بچے کے ہاتھ میں ہر وقت موبائل دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ وہ آن لائن پڑھ رہا ہے وہ اس آن لائن جذبات فروشی کا دراصل تماشبین بن چکا ہے
جسے آپ نے روائتی طریقے سے روکنے کی کوشش کی تو وہ گھر بار چھوڑنے پر تیار ہو جائے گا۔ ہم نے غیر محسوس انداز میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کو اپنی خاندانی روایات کی جگہ دے دی ہے۔انٹرنیٹ ہمارے دماغ کو پڑھ کر دنیا کو بتا رہا ہے کہ پاکستان کے سات سال کے بچے سے لے کر جوان عمر کے کروڑوں لوگ جنسی فرسٹریشن کا شکار ہیں۔یہ فرسٹریشن قدرتی ہوتی ہے لیکن گھر کی تربیت اور سماج کی رہنمائی سے اسے قابو میں رکھنا سکھایا جاتا ہے۔
مشہور قول ہے کہ ماں کی گود پہلی درس گاہ ہے۔ہر ماں سے یہ سوال ضرور کیا جانا چاہیے کہ وہ سماجی اقدار‘خواتین کے احترام اور سماجی امن کے حوالے سے اپنے بیٹوں کو کیا سکھا رہی ہے۔بیٹیاں خاندان میں سب سے زیادہ پیار لیتی ہیں‘وہ باپ کی جان ہوتی ہیں لیکن ان کی ذرا سی لغزش باپ کی جان بھی لے سکتی ہے۔ہمارے تعلیمی ادارے‘دینی مدرسے اور جمہوری ادارے ٹک ٹاکروں اور یوٹیوبرز نے یرغمال بنا لئے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ عمران خان کی حکومت نے پرنٹ میڈیا کو دیوار سے لگا کر ہر اہم معاملے میں یوٹیوبر اور ٹک ٹاکرز کو مدعو کرنا شروع کر دیا ہے‘
میٹنگز میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے کتنے سبسکرائبر ہیں‘کتنے فالوورز ہیں۔بیچارے سنجیدہ لوگ چار پانچ ہزار کے سبسکرائبرز بتاتے ہیں جبکہ کوئی گمنام سی خاتون یا شوخا سا لڑکا آپ کی بغل سے اٹھ کر بتائے گا کہ اس کے دس لاکھ سبسکرائبرز ہیں۔وزیر صاحب کی نظر عنایت اس ’’بڑے میڈیا ہائوس‘‘ کی طرف ہو جائے گی۔حکومت مانے نہ مانے سوشل میڈیا پر غیر سنجیدہ لوگوں کو ریٹنگ ملتی ہے‘اب ان کو اہمیت دیں گے تو پھر مینار پاکستان جیسے واقعات تو ہوں گے۔