وزیراعظم صاحب اب شرمندہ تو ہونگے مگر ۔۔۔۔۔۔۔
لاہور (ویب ڈیسک) نامور خاتون کالم نگار آمنہ مفتی بی بی سی کے لیے اپنے خصوصی تبصرے میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔مری میں ہر برس برف پڑتی ہے، ہر برس ہی لاکھوں سیاح مری کا رخ کرتے ہیں، ہر برس ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہر برس جانے والے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرتے ہیں
کہ ’بس بہت دیکھ لی برف، آئندہ کبھی اس بستی کا رُخ نہیں کرنا۔‘لیکن ہر برس جب مہاوٹیں برستی ہیں، درخت پتے جھاڑ کے اپنے ہی وجود کی پرچھائیں لگنے لگتے ہیں اور کالے بادلوں کے دل ملکہ کوہسار پر لہرانے لگتے ہیں تو پھر سے لاکھوں دیوانے رائیڈر ہیگرڈ کی شی جیسی اس پُراسرار اور کبھی نہ بوڑھی ہونے والی معشوقہ کا رخ کرتے ہیں۔اس جادوئی بلاوے پر جانے والی گاڑیاں دریا کے ایک اور دھارے کی طرح مری روڈ پر الگ سے نظر آتی ہیں۔ شیشوں سے ناک چپکائے باہر جھانکتے رنگ برنگے سویٹروں اور ٹوپیوں والے بھولے چہرے، اگلی نشستوں پر چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتی لڑکی سی ماں اور اس گرہستی کو چلانے کے معصومانہ خمار میں بھیگے چہرے والا باپ۔یہ خوش و خرم قافلے، مال روڈ پر تتلیوں کے جھلڑوں کی صورت نظر آتے ہیں
تو کبھی سنی بینک کشمیر پوائنٹ اور لوئر مال پر رنگین پیراہن لہراتے ہیں۔ سالہا سال سے پاکستان کے متوسط طبقے کی تفریح مری، کاغان اور ناران ہی ہیں۔ یہاں کے ہوٹل زیادہ تر مقامی یا عام پاکستانیوں کی ملکیت ہیں۔ہر برس ایسا ہی ہوتا ہے کہ آسمان سے برستی برف زمین آسمان ایک کر دیتی ہے۔ ہر برس ہی گاڑیاں برف میں پھنستی ہیں، ہر برس ہی ٹریفک بے قابو ہو جاتی ہے، ہر برس ہی چند گھنٹوں میں سب کچھ معمول پر لے آیا جاتا ہے۔اس برس کیا ہوا؟ اکیس سیاح موت کے منھ میں چلے گئے۔شیخ رشید صاحب کو حادثے لپیٹ کر ’سب نارمل ہے‘ کے غلاف چڑھانا خوب آتا ہے
وہ اپنا فن دکھا رہے ہیں۔ فواد چودھری صاحب نے اپوزیشن کی طرف منھ کر لیا ہے۔ ٹی وی چینلز پر جہاں اجتماعی طور پر سول انتظامیہ کو کوسا جا رہا ہے وہیں ایک متوازی پٹی، آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی چل رہی ہے۔چینلز پر رپورٹرز لوگوں کے انٹرویو دکھا رہے ہیں اور وہ سب آرمی کی تعریف کر رہے ہیں۔ کیمپس کا بھی ذکر ہے اور ساتھ کے ساتھ لوگ مری کے ہوٹل مالکان کے کرائے بڑھا دینے کا ذکر بھی کر رہے ہیں۔اصل غصہ سول انتظامیہ پر نکالا جا رہا ہے۔
شیخ رشید صاحب نے خود بھی فرمایا کہ سول ریسٹ ہاوس عوام کے لیے کھول دیے گئے ہیں لیکن وہ اتنی بلندی پر واقع ہیں اور ان کا راستہ بھی صاف نہیں تو کچھ خاص فائدہ نہیں۔سنی بینک، لوئر ٹوپہ، کلڈنہ، باڑیاں، کالاباغ وغیرہ میں عین لب سڑک فوج کی بڑی بڑی عمارات ہیں۔ ہم تو موقع پر موجود نہیں تھے اور ابھی بہت سی خبریں باہر نکلی ہی نہیں ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ ان وسیع عمارات کے دروازے بھی آفت زدگان کے لیے کھول دیے گئے ہوں گے۔
ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر لائیو چلنے والی کئی خبریں کچھ اور ہی کہانیاں سنا رہی ہیں۔ بہت سی جگہوں سے برف ابھی تک صاف نہیں ہوئی اور امداد بھی نہیں پہنچی۔سیاحوں کی ایسی تکلیف دہ موت پر بہت دکھ ہوا۔ قصور وار کون تھا؟ عناصر کے ہاتھوں انسان شکست کھاتا آیا ہے۔ کہنے والے ایک زبان ہو کر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ لوگ مری گئے ہی کیوں تھے؟لوگ اگر مری نہیں جائیں گے
تو وہ مالم جبہ جائیں گے، وہاں نہیں تو کہیں اور جائیں گے۔ بدانتظامی اور نااہلی کے لیے حادثے کا شکار ہونے والوں کو مورد الزام ٹھہرانا بھی آج کل چلنے والی منھ توڑ تحریک کا حصہ ہے۔ایک کے بعد ایک تکلیف دہ معاملات، جنھیں دیکھ کر صرف ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے کہ ’گڈ گورننس‘ چھوڑیے، ’گورننس‘ بھی کہیں نظر نہیں آرہی۔عثمان بزدار صاحب تھوڑا ٹرین ہوتے رہیں گے۔ پاکستان کا وہ متوسط طبقہ جس کی خوشحالی کے گن گاتے لوگ تھک رہے تھے
وہی طبقہ بار بار تکلیف اٹھاتا رہے گا۔ ہر بار پچھلے حکمرانوں کو کوسنے پیٹنے کی روایت دہرائی جائے گی، خبروں میں کارکردگی کی متوازی پٹیاں چلیں گی اور زندگی یوں ہی رواں رہے گی۔ جو چلے گئے خدا ان کی مغفرت فرمائے اور جو بچ گئے، (ہم سمیت) ان پر رحم فرمائے۔اس کے سوا ہم نہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی کہنے کی جا ہے۔وزیراعظم صاحب اب تو شاید خود بھی فرات کے کنارے جان دینے والے کتے کی مثال دینے پر شرمسار ہوتے ہوں گے مگر شاید۔۔۔