شاید اب میں پاکستان واپس نہیں جاؤنگا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔
لاہور (ویب ڈیسک) سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہونے والے سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کی میت سری لنکا پہنچنے کے بعد ان کی رہائش گاہ لائی گئی جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔پریانتھا کو سیالکوٹ میں گذشتہ جمعے کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں زندگی سے محروم کر دیا تھا۔
حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ الزامات جھوٹ پر مبنی تھے اور اس مقدمے میں اب تک سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ پریانتھا سری لنکا کے سب سے بڑے شہر کولمبو سے قریب 33 کلومیٹر دور علاقے گنیمولا کے رہائشی تھے
اور ان کے لواحقین میں ان کی والدہ، بھائی، اہلیہ اور دو بیٹے شامل ہیں۔ اس خاندان کا تعلق بدھ مت سے ہے اور ویڈیوز میں ان رسومات کو ادا کرنے کے لیے راہب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب جسد خاکی ان کی رہائش گاہ پر پہنچتا ہے تو ان کی والدہ رونے لگتی ہیں
اور ان کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ ان کی والدہ اس تابوت کو چھوتی ہیں اور اس دوران پورا خاندان آبدیدہ ہو جاتا ہے۔ان کی اہلیہ اور کم عمر بیٹوں سمیت وہاں موجود تمام افراد اپنے ہاتھ جوڑ کر دعا کرتے ہیں۔ان رسومات کے دوران ان کے گھر مقامی سیاسی و سماجی رہنما بھی آئے اور اس واقعہ کی مذمت کی۔
اس موقع پر پریانتھا کے بھائی وسنتھا کمارا کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے خاندان کو انصاف ملے گا۔ انھوں نے سری لنکن اور پاکستانی حکام سے کہا ہے ’اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم صورتحال پر اطمینان ظاہر کریں تو پہلے ہمیں بریف کیا جائے کہ اب تک کیا ہوا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔‘ان کے ایک دوسرے بھائی کمالا سری سنتھا کمارا، جو پاکستان کے شہر فیصل آباد میں ملازمت کرتے ہیں،
کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستان واپس جانا غیر واضح ہے۔ آج ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ آیا میں واپس جا کر کام کر سکوں گا کیونکہ میرا خاندان بہت ڈرا ہوا ہے۔‘