صاحب جی : آخر حکمران ہمیں کس چیز کی سزا دے رہے ہیں ؟
لاہور (ویب ڈیسک) بعض کردار اپنے عہد کی تاریخ ہوتے ہیں وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی کا بیرومیٹر کیا دکھا رہا ہے۔انہی کرداروں کی بدولت یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عوام کو اپنی حکمرانی سے سبز باغ دکھانے کا چکمہ دینے والے انہیں کس حال تک پہنچا چکے ہیں۔ایسے کردار ہمیں بہت مل جاتے ہیں
جن کی زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بدلاکچھ بھی نہیں‘ استحصالی نظام اور نہ غریب کی حالت۔نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ایک ایسا ہی کردار ملتان کینٹ کے محفوظ پان والے چوک پر بیٹھا ہے مالک موچی جس کی ایک سفید داڑھی ہے مگر جب وہ ساٹھ کی دہائی میں وہاں آیا تھا تو ایک جوان اور خوبرو لڑکا تھا۔ہم جب صبح سکول جاتے تو اسے دیکھتے کہ سڑک پر اپنے اردگرد کی زمین صاف کر رہا ہے۔کبھی ہلکا چھڑکاؤ بھی کرتا‘کیونکہ اس نے سارا دن وہاں بیٹھنا ہوتا تھا۔چونکہ ہمارا گھر ساتھ ہی تھا‘ اس لئے شام کے وقت اس کے پاس بیٹھ جاتے اور اس کی باتوں کے ساتھ جوتیوں کی مرمت کرتے بھی دیکھتے جو ملتان میں رہتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ صدر بازار کینٹ اور اس چوک کی کیا اہمیت ہے۔یہ وہ گزرگاہ ہے جہاں سے محترمہ فاطمہ جناح بھی گزریں اور ذوالفقار علی بھٹو بھی۔بے نظیربھٹو‘نوازشریف اور عمران خان کا بھی یہاں سے گزر ہوا بلکہ کئی کئی بار ہوا‘ یہ موچی جواب موچی بابا ہو گیا ہے‘ ان تمام مناظر کا عینی شاہد ہے۔گویا اس نے ”انقلاب“ کی ساری داستان اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب 1977ء میں بھٹو کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو مفتی محمود‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ اصغر خان‘ولی خان‘ نوابزادہ نصراللہ خان اسی چوک میں کھڑے ہو کر جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔بھٹو جب بھی ملتان ایئرپورٹ سے نواب صادق حسین قریشی کے رائٹ پیلس پرانا شجاع آباد روڈ جاتے تو وہ بھی یہیں سے گزرتے
اور اس چوک پر رک کر لوگوں سے خطاب کرتے چوک کے ساتھ ہی گڈمنٹ ٹیلرز ایک شاپ تھی جوپیپلزپارٹی کینت کا دفتر بھی تھا‘ بھٹو وہاں رک کر بھی کارکنوں سے ملاقات کرتے۔یوں ملتان میں سب سے زیادہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز یہی صدر بازار ہوتا تھا۔جب سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو پہلی بار اپنے آبائی شہر آمد پرانہوں نے بجائے سیدھا اپنے گھر جانے کے‘ بھٹواوربے نظیربھٹو کی روایت کو نبھاتے ہوئے صدر بازار سے گزر کر جانے کا فیصلہ کیا‘موچی بابا یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا ہے۔لیکن اس کی حالت نہیں بدلی نہ ہی زمین سے اٹھ کر کسی کرسی پر بیٹھنا نصیب ہوا ہے۔شب روز خان نسلاًپٹھان ہے اور کئی دہائیوں پہلے خیبرپختونخوا سے ہجرت کر کے ملتان آیا اور یہیں بس گیا۔بہت معروف اور مقبول شخصیت ہے اور زندہ دل بھی‘ آج بھی لوگ اس سے کوئی مذاق کرتے ہیں تو اس کا جواب اسی انداز میں دیتا ہے۔کل میں صدربازار گیا تو حسب معمول اس کے پاس جا بیٹھا۔اس نے گاہکوں کے لئے ایک چھوٹی سی پیڑھی رکھی ہوئی ہے۔اس نے حال احوال پوچھا اور پھر اچانک یہ سوال داغ دیا‘”آٹا ملا ہے؟“میں نے کہا شب روز خان یہ کیا مذاق ہے؟کہنے لگا آج کل تو سب یہیں پوچھتے ہیں‘ حال چال کا اندازہ اسی سے لگاتے ہیں‘ پھر کہنے لگا تمہیں یاد ہے بھٹو دور میں تم اور میں راشن کارڈ لے کرتھانہ کینٹ کے ساتھ بنے ڈپو پر جاتے تھے۔لائن میں لگتے تھے‘کبھی تمہاری باری پہلے آجاتی تھی اور کبھی میری‘کئی بار تو میں نے تمہیں اپنی باری دی تا کہ تم جلدی گھر آٹا‘چینی لے جاؤ‘ میں نے کہا ہاں مجھے سب یاد ہے۔
اس زمانے میں راشن کارڈ ہمیں بہت عزیز ہوتا تھا‘ بہت قیمتی‘ آج کے شناختی کارڈ سے بھی زیادہ‘ کیونکہ اگر وہ کارڈ گم جاتا تو راشن بھی بند ہوجاتا تھا۔اور بازار سے مہنگا آٹا اور چینی خریدنی پڑتی تھی۔کہنے لگا”یار آج مجھے تو اپنا وہ زمانہ بہت اچھا لگ رہا ہے اس میں تو بڑی خوشحالی تھی۔راشن پر چیزیں ملتی تھیں پر مل جاتی تھیں اور سستی بھی ہوتی تھیں‘ اب تو مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہیں اور پھر ملتی بھی مہنگی ہیں۔کیا ہم نے یہی ترقی کی ہے۔اب میں اسے کیا سمجھاتا‘ میں تو پڑھ لکھ کے پروفیسر بن گیا تھا‘ خوشحال بھی ہو گیا تھا‘ گاڑی‘ بڑا گھر‘ بینک بیلنس‘ ماہانہ آمدنی غرض سب کچھ تو میرے پاس آ گیا‘ مگر وہ زمین پر بیٹھا رہا‘ جوتیوں کی مرمت سے اس کا دن شروع ہوتا اور شام کو ختم ہوجاتا۔اس کی آمدنی تو اس تیز رفتاری سے نہیں بڑھی‘ جس شدت سے مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا‘ سو اس کا یہ کہنا تو بنتا ہے کہ چالیس پینتالیس سال پہلے کا پاکستان خوشحال تھا‘آج بدحال ہے۔ اسے آج بھی بدحالی کا احساس نہ ہوتا اگر آٹا80روپے کلو اور چینی 100کلو روپے کلو نہ خریدنی پڑتی۔وہ پاکستانی غریبوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہے، جو غریب پیدا ہوئے اور غربت کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔لیکن ان کی ایمانداری‘محنت‘ ملک سے محبت اور انسانی جذبوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ایک زمانے میں شب روز خان پورے دن میں بڑی مشکل سے پچاس روپے کماتا تھا۔
پالش کرنے کے پچاس پیسے لیتا اور اچھی مرمت کا روپیہ دو روپیہ معاوضہ مل جاتا‘ لیکن اس کی گزربسر اچھی ہوجاتی تھی۔وہ اپنا گزارا بھی کرتا اور ماں باپ کو بھی پیچھے پیسے بھیجتا۔آج وہ سات آٹھ سوروپے روزانہ کما لیتا ہے مگر اسے یوں لگتا ہے وہ غریب ہو گیا ہے۔بوڑھا ہونے کی وجہ سے اپنے اور بیوی کیلئے جب گلزار میڈیکل ہال سے جس کے سامنے وہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے بیٹھاہے‘کوئی دوائی لینے جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اس نے قطرہ قطرہ کر کے جو پیسے سارے دن میں کمائے ہیں‘ انہیں ایک دوائی کی قیمت اپنے ساتھ بہا لے گئی ہے۔کل وہ ایک اور بات پر بھی رو پڑا‘ اس نے جیب سے بجلی کا بل نکال کر دکھایا۔کہنے لگا پچھلے سال تو سردیوں میں بل صرف پانچ چھ سو کا آتا تھا۔اب پانچ چھ ہزار کا آ رہا ہے‘ ذرا دیکھ کر بتائیں کہ بجلی کتنی جلی ہے‘میرے گھر میں تو صرف بلب جلتے ہیں‘ فریج بھی نہیں۔میں نے بل دیکھا تو کرنٹ یونٹس صرف 70جلے تھے‘ اور کرنٹ بل 407روپے تھا۔باقی چار ہزار روپے ایف پی اے سرچارج کی مد میں درج تھے‘ یوں بل 4407روپے بن گیا تھا۔اب میں اسے کیسے سمجھاتا کہ اس حکومت نے عوام پر ستم ڈھانے کے کیا کیا راستے ایجاد کرلئے ہیں۔ ہر ماہ اربوں روپے ایف پی اے سرچارج کے نام پر وصول کئے جا رہے ہیں اور اس کا کوئی فارمولا عوام کو معلوم ہے اور نہ ہی کہیں شنوائی ہوتی ہے۔پہلے تو چیف جسٹس آف پاکستان ایسی ناانصافیوں کا ازخود نوٹس لے لیتے تھے‘ اب تو دنیا چیخ رہی ہے‘ لوگ دھاڑ کر رہے ہیں‘ مگر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔میں سب روز خان کا مایوس اور روہانسا سا چہرہ دیکھ کر سوچنے لگا اگر کوئی اس شخص کی یادوں کا ایکسرے لے کر تو اسے اندازہ ہو کہ پاکستان میں عوام کے ساتھ کیا کچھ ہوا ہے۔انہیں کیسے کیسے خواب دکھا کے ستایا گیا ہے۔