کمپنی نہیں چلی :
لاہور (ویب ڈیسک) وہ بے وقوف نہیں بلکہ حددرجہ چالاک اور بے وقوف بنانے کے ماہر ہیں۔ عوام سے لے کر خواص تک، سب کے ہاتھ میں الگ الگ لالی پاپ دے رکھا تھا لیکن اب ہر حوالے سے ثابت ہوگیا کہ وہ مسیحا نہیں بلکہ بہت بڑے کھلاڑی اور مداری ہیں۔تاثر یہ دیا تھا کہ انہیں ذاتی آرام
عزیز ہے، ذاتی مفاد اور نہ ذاتی انا۔ جو کچھ کریں گے ملک کے لئے کریں گے لیکن واضح ہوگیا کہ ان کی سوچ ذات سے شروع ہوتی اور ذات پر ہی ختم ہوتی ہے۔نامور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ذاتی ضرورت ہو تو وہ لبرل بن جاتے ہیں اور ذاتی مفاد کا تقاضا ہو تو مذہبی کارڈ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ یہ تک نہیں سوچتے کہ مذہبی کارڈ کا استعمال اس وقت ملک کے لئے کتنا تباہ کن ہے۔تاثر دیا تھا کہ وہ بدعنوانی کا خاتمہ کریں گے اور گروہوں کو لگام ڈالیں گے لیکن ان کی حکومت میں بدعنوانی ماضی کی کسی بھی حکومت سے زیادہ ہے۔ نیب کا خوف، عدالت کا اور نہ میڈیا کا!چنانچہ نہ صرف بدعنوانی کا بازار گرم ہے بلکہ انتہائی ڈھٹائی اور بیہودہ طریقے سے بدعنوانی ہورہی ہے۔جب عالمی وبا کے لئے آنے والی خیراتی رقم میں سے چالیس ارب روپے کی ہیراپھیری ہورہی ہو تو اندازہ لگالیں
کہ باقی جگہ کیا حالت ہوگی؟ پہلی حکومتوں میں اسامیاں بکتی تھیں لیکن ان کی حکومت میں وزارتیں اور صوبے بک رہے ہیں۔بلوچستان کی پہلی حکومت بھی اربوں میں بنی تھی اور اب بھی کئی ارب روپے کے عوض اقتدار میں آئی ہے۔ پنجاب میں سرآئینہ کوئی اور ہے جبکہ پس آئینہ اربوں کا دھندہ زوروں پر ہے۔ خیبرپختونخوا کے بارے میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے اور پرویز خٹک کے بھائی، جو چند روز قبل تک وزیر تھے، نے میرے ٹی وی شو میں گواہی دی کہ بدعنوانی کے حوالے سے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے
۔تاثر دیاتھا کہ موت کو سینے سے لگا لوں گا لیکن قرضہ نہیں لوں گا۔ دعویٰ تھا کہ امداد کی بھیک نہیں مانگوں گا لیکن اتنی بھیک مانگی کہ اب سعودی عرب جیسے دوست بھی مزید خیرات یا امداد دینے کے بجائے قرضہ دے رہے ہیں اور وہ بھی سخت ترین شرائط پر۔قرضے اتنے لئے کہ ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ نون لیگ کی حکومت نے پانچ سال میں 30 ہزار ارب کا قرضہ لیا تھا جبکہ ان کی حکومت نے تین سال میں50 ہزار ارب روپے سے زیادہ قرض لے لیا۔ماضی کی حکومتوں میں بھی معاشی پالیسی سازی میں آئی ایم ایف کا عمل دخل ہوا کرتا تھا لیکن یہ پہلی حکومت ہے جب اقتصادی پالیسیوں کی مہار مکمل طور پر آئی ایم ایف کے ہاتھ میں دی جا چکی ہے۔انہوں نے تاثر دیا تھا کہ انہوں نے بے تحاشہ ہوم ورک کررکھا ہے اور یہ کہ ان کے پاس ماہرین کی ٹیم ہے
لیکن اقتداردلوانے کے بعد پتہ چلا کہ ان کی ٹیم میں وزیرخزانہ اور وزیر قانون تک نہیں۔وزیرقانون الطاف حسین کے تربیت یافتہ ان کے سابق وکیل کو بنایا گیا۔ پہلے جس شخص کو وزیرخزانہ بنایا گیا، وہ معیشت کے نہیں بلکہ مارکیٹنگ کے ماہر تھے اور وہ بھی اپنی ذات کی مارکیٹنگ کے۔چنانچہ انہوں نے تباہی کی بنیادیں رکھ دیں اور اب ان کے ذریعے سی پیک وغیرہ کا بیڑہ غرق کیا جارہا ہے۔ پہلے زرداری کا ایک وزیرخزانہ باہر سے منگوایا گیا اور اب ان کا دوسرا وزیرخزانہ ان کے خزانے کو چلائےگا۔اسٹیٹ بینک کا گورنرآئی ایم ایف سے لایا گیا
جو اس سے قبل مصر کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کی شہرت رکھتا ہے۔ ان کی حکومت میں کچھ اہم وزارتیں کراچی میں میزبانی کرنے والوں کی، کچھ لندن میں خدمت کرنے والوں،کچھ لاہور میں خدمت کرنے والوں کی اور کچھ خوشامد میں ثانی نہ رکھنے والے پختونوں کے حوالے کی گئیں۔چنانچہ معیشت تباہ ہوکررہ گئی۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی اور بیروزگاری اس حد تک بڑھ گئی کہ ملک جرائمستان میں تبدیل ہو گیا۔مکرر عرض ہے کہ اسٹیٹس مین شپ ان کے قریب سے نہیں گزری لیکن بے وقوف بنانے میں بلا کے ماہر ہیں۔ چنانچہ اچھے بھلے، باخبر اور سمجھدار لوگ بھی ان سے توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وہ پاکستان کو جنت بنادیں گے۔اس لئے ان کی خاطر تمام ریاستی اداروں نے پورے خلوص کے ساتھ بالاجماع اپنے آپ کو استعمال کیا۔ ایک طرف نواز شریف اور زرداری پر غصہ تھا اور دوسری طرف ان کی اندھی محبت تھی، چنانچہ طاقتور اداروں نے بھی ان کی خاطر سب اداروں کے بازو مروڑ دئیے۔ اقتدار میں آنے سے قبل انہوں نے تاثر دیا تھا کہ وہ اداروں کو مضبوط بنائیں گے لیکن اداروں کی جو بے توقیری ان کے دور میں ہوئی، اس کی مثال نہیں ملتی۔عدلیہ کتنی بے توقیر ہوئی ہے، اس کے لئے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد کا اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی موجودگی میں کھڑاک ہی کافی ہے۔قومی احتساب بیورو کو انتقام بیورو اور پریشر بیورو میں بدل دیا گیا۔میڈیا کو پہلے تقسیم اور بے توقیر کیا اور اب اس کا انجام قریب لانے میں لگے ہیں۔
سب سے بڑی ناانصافی اپنے سب سے بڑے محسن ادارے کے ساتھ کی۔ پہلے ایک پیج ایک پیج کہہ کر اس کو متنازع بنایا۔ پھر ڈھال بننے کی بجائے اسے اپنی حکومت کے لئے ڈھال بنایا۔ اپوزیشن، میڈیا اور عدلیہ سب کو حسبِ استطاعت اس سے لڑانے کی کوشش کی۔ پھر اس کے خلاف خود میدان میں نکل آئے۔پہلے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے نوٹیفیکیشن کے ذریعے اس ادارے کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی اور پھر رہی سہی کسر ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفیکیشن کے باب میں پوری کردی۔ میری ایماندارانہ رائے ہے کہ سو شریف اور سو زرداری حریف کی صورت میں اس قومی ادارے کی ساکھ اور وقار کو وہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے جو حلیف بن کر تنہا اس شخص نے پہنچا دیا۔چنانچہ اس وقت سب سے بڑی آزمائش سےیہ ریاستی ادارے دوچار ہیں۔اس شخص کی خاطر اتنی دشمنیاں مول لی گئی ہیں
کہ انہیں آسانی کے ساتھ چھوڑا بھی نہیں جاسکتا۔اس تناظر میں انہیں خود بھی یہ زعم ہے کہ ان کا کوئی متبادل نہیں، اس لئے وہ مزید جارحانہ انداز میں کھیلنے لگے ہیں۔ ریاستی اداروں کے لئے تاریخ کا سب سے بڑا بوجھ بھی بن گئے ہیں لیکن ساتھ ساتھ مجبوری بھی۔دوسری طرف اپوزیشن اتنی نکمی، تقسیم اور غیرمستقل مزاج ہے کہ خود کوئی متبادل راستہ نکال کر اداروں کے سامنے پیش کرنے کی بجائے اس انتظارمیں بیٹھی ہے کہ کوئی اور اس کی واپسی کا خاکہ تیار کردے جس میں وہ صرف رنگ بھرلیں گے۔پیپلز پارٹی نے خاکے میں رنگ بھرنے کا کام شروع کردیا ہے (اگرچہ مجھے یہ خاکہ کبھی مکمل تصویر بنتا نظر نہیں آرہا) جبکہ نون لیگ خاکے کے انتظار میں بیٹھی ہے۔کھلاڑی کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ ان خاکوں کا سراغ لگاتے اور انہیں مٹانے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ رہا ملک اور اس کے عوام کا سوال تو اس کا سوچنے اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اے اللہ تو ہی اس ملک کی حفاظت فرما۔ آمین!