آپ ہمیں ناچ کر دکھائیں ، ہم سارا زیور آپ کی جھولی میں ڈال دیں گی ۔۔۔
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔حکومتوں کا ایک آدھ فیصلہ پوری قوم کا مقدر بدل دیتا ہے‘ یہ انتہائی تعلیم یافتہ قوموں کو صرف 30برسوں میں جاہل ترین قوم بنا دیتا ہے اور سرسید احمد خان جیسا کوئی ایک شخص آ کر قوم کو دوبارہ پٹڑی پر
ڈال دیتا ہے ‘ سرسید نے کیا کیا تھا؟ اس نے ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے جھولی پھیلائی اور علی گڑھ میں پہلی مسلمان یونیورسٹی بنا دی‘ یہ تعلیم کے معاملے میں اتنے جنونی تھے کہ یہ چندہ مانگنے کے لیے لاہور کی ہیرا منڈی پہنچ گئے
‘ طوائفوں نے کہا‘ آپ ہمیں ناچ کر دکھائیں‘ ہم اپنے زیور آپ کی جھولی میں ڈال دیں گے‘ شاہ صاحب نے سڑک پر ناچنا شروع کر دیا‘ سرسید کی جھولی زیوروں سے بھر گئی ‘ طوائفوں نے کہا‘ مولوی صاحب ہماری کمائی حرام ہے۔آپ حرام کی کمائی حلال کے کام پر کیسے لگائیں گے؟ سرسید نے جواب دیا‘
آپ فکر نہ کریں میں اس رقم سے علی گڑھ یونیورسٹی (کالج) کے غسل خانے تعمیر کر لوں گا‘ آپ جنون دیکھیے‘ 1946ء میں پاکستان کا اعلان ہو ا توڈاکٹر ضیاء الدین احمد علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے‘ انھیں پتا چلا پاکستان کے لیے انجینئر چاہیے ہوں گے‘ مسلمان اس شعبے میں بہت پیچھے ہیں‘ علی گڑھ یونیورسٹی نے فوری طور پر انجینئرنگ کالج کی نشستیں بڑھائیں‘ دن رات کلاسز چلائیں
‘ ہر مہینے امتحان لیے اور سات ماہ میں سیکڑوں انجینئرز تیار کر دیے اور یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے آگے چل کر پاکستان کو دس سال میں قدموں پر کھڑا کر دیا۔میرا سوال یہ ہے اگر رنجیت سنگھ 1830ء میں پورے پنجاب اور سرسید احمد خان ہندوستان کے اعلیٰ مسلمان خاندانوں کو تعلیم یافتہ بنا سکتے ہیں تو ہم یہ کام آج کیوں نہیں کر سکتے؟ میری درخواست ہے حکومت راجہ رنجیت سنگھ اور سرسید احمد خان کے ماڈلز کا مطالعہ کرے اور ملک میں صرف تعلیم کا نظام مضبوط اور جدید بنا دے‘ یہ ملک دس پندرہ برسوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا‘ آپ کچھ نہ کریں
آپ اعلیٰ تعلیم کا صرف ایک شعبہ لے لیں‘ آپ آرکی ٹیکچر‘ انجینئرنگ‘ آئی ٹی‘ سوشل میڈیا‘ میڈیکل سائنس یا پھر ٹیکسٹائل انجینئرنگ کو لے لیں اور گراس روٹ سے لے کر یونیورسٹی تک ایک لاکھ نوجوانوں کو اس کی تعلیم دے دیں‘
یہ لاکھ لوگ پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بن جائیں گے‘ یہ ملک بدل جائے گا لیکن یہ کرے گا کون؟ وزیرتعلیم شفقت محمود سارا دن الیکشن کمیشن کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور وزیراعظم میچ دیکھتے رہتے ہیں چناں چہ سرسید اور رنجیت سنگھ جیسے فیصلے کون کرے گا؟ یہ سوال بہت قیمتی ہے۔