7000 افغان دوشیزائیں افغانستان سے بھارت پہنچائے جانے کا انکشاف : مگر کس مقصد کے لیے ؟ پاک فوج کے ریٹائرڈ کرنل کا دعویٰ
لاہور (ویب ڈیسک) پاک فوج کے سابق افسر اور نامور کالم نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنرل امجد شعیب نے اپنے ایک بلاگ میں اس خبر کو بریک کیا تھا کہ انڈیا اپنے جہازوں میں 7000نوجوان افغان لڑکیوں کو انڈیا لے گیا ہے۔ان نوجوان لڑکیوں کے ساتھ کوئی مرد نہیں تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ افغانستان میں ان کے عزیز و اقربا تو ہوں گے۔ اگر جنرل امجد شعیب کی بات درست تھی (اور مجھے معلوم تھا کہ درست تھی) میں نے GHQ میں ان کے ساتھ Serveکیا ہوا ہے۔ وہ ڈاکٹرین ڈائریکٹوریٹ میں میرے DG تھے اور ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں۔
انہوں نے ملٹری انٹیلی جنس کی سربراہی بھی کی ہوئی تھی۔ اس لئے مجھے اس بات میں قطعاً کوئی شک نہیں تھا کہ وہ جب 7ہزار افغان دوشیزاؤں کا ذکر کررہے ہیں تو اس میں مبالغے کا کوئی شائبہ نہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 7000افغان لڑکیاں وہ تھیں جو انڈیا کے قونصل خانوں میں ملازم تھیں، لکھی پڑھی تھیں۔ ان کا سارا ریکارڈ بھارتی قونصل خانوں میں موجود ہوگا۔ ان کو اپنے بے روزگار ہونے کی فکر تھی۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ وہ چونکہ تجربہ کار اہلکاروں کی ذیل میں آتی ہیں، اس لئے انڈیا میں ان کو مختلف محکموں میں ان کی سنیارٹی کے مطابق ملازمتیں دے دی جائیں گی اور وہ وہاں سے اپنے والدین کو اپنی تنخواہ وغیرہ افغانستان بھیج سکیں گی۔ کابل میں انڈیا کا سفارت خانہ ان کی مدد کرے گا…… لیکن ہوا کیا؟…… میں اگلے روز ایک انڈین نیوز چینل پر ایک بحث سن رہا تھاجو یہ تھی کہ کیا کوئی مسلمان لڑکی کسی ہندو لڑکے سے شادی کر سکتی ہے؟اینکر نے اس موضوع پر بحث کرنے کے لئے جس تجزیہ نگار کو لائن پر لیا ہوا تھا، وہ ایک خاتون بیرسٹر تھی اور (ظاہر ہے) ہندو تھی۔
اس نے کہا کہ اگر کسی مسلمان لڑکی کو کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرنے کا مرحلہ آ جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ دونوں (لڑکا اور لڑکی) عدالت میں جائیں اور بیان ریکارڈ کروائیں کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت پہلی ہی پیشی پر ان کے حق میں فیصلہ دے دے گی۔ اسے ’کورٹ میرج‘ کا نام دیا جاتا ہے۔زن و شو اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں گے اور شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔ انڈیا ہی نہیں پاکستان اور دنیا کے دوسرے کئی ممالک میں کروڑوں جوڑے اسی طرح شادی شدہ ہیں …… دوسرے لفظوں میں سات ہزار افغان مسلمان خواتین انڈیا کے سکھوں اور ہندوؤں کے حبالہء عقد میں آ جائیں گی اور ان پر کوئی سماجی قدغن نہیں ہوگی!جن قارئین کی نظر سےلڑائیوں کی تاریخ گزری ہے ان کو معلوم ہوگا کہلڑائی کے خاتمے پر (بلکہ لڑائی کے دوران بھی) عورت، اس لڑائی کی پہلی کایلٹی بنتی ہے۔
یہ اگرچہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن میرے لئے اس میں حیرت کا پہلو یہ تھا کہ اب تک افغانستان کے غزنوی، غوری، نادر اور ابدالی ہندوستان پردھاوا بولتے رہے ہیں اور واپسی پر ان کے ساتھ ہندوؤں کی کنواری لڑکیاں بھی آتی رہی ہیں جن کو مسلمان کرکے شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا تھا۔ انڈیا کے ہندوؤں کو مسلمانوں کے اس ” ظلم و ستم“ پر از حد برہمی تھی (جو آج بھی ہے) اگست 1947ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تو اس ’عظیم‘ (Massive) انتقالِ آبادی میں مشرقی پنجاب (انڈین پنجاب) کی مسلمان لڑکیوں کے ساتھ غیر مسلموں نے جو سلوک کیا، کہا جاتا ہے کہ وہ اسی غزنوی / غوری / ابدالی ادوار کی انتقامی صدائے بازگشت تھی!افغانستان کے لڑکوں، لڑکیوں، مردوں اور عورتوں کو اس لڑائی نے افغانوں کی روایات اور ثقافت سے صرف 20برسوں میں کس طرح بیگانہ کر دیا تھا میرے لئے یہ
حیرت انگیز اور چشم کشا بات ہے۔ اسی افغان سرزمین میں ایک طرف تو زندگی بسر کرنے والے افغانوں نے امریکی / یورپی / بھارتی تسلط کو مسترد کرنے میں ہزاروں لاکھوں جانوں کی قربانی دی لیکن دوسری طرف انہی افغان مرد و زن کی سائیکی کس طرح 180ڈگری تبدیل ہوئی۔یہ امر ہم پاکستانیوں کے لئے بہت چشم کشا ہے…… فرض کریں اگر افغانستان، 2001ء میں امریکیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک بیٹھا تھا تو اس کی اگلی منزل کیا تھی؟…… اس سوال پر گہرے انداز میں غور فرمایئے اور جن حیرتوں کا میں نے سطورِ بالا میں ذکر کیا ہے اس کا ’ری پلے‘ بھی نظر میں رکھئے ہر چند کہ یہ ’ری پلے‘ زیادہ دور کی کوڑی نہیں …… اور ہم پاکستانی، اپنے افغان بھائیوں سے زیادہ غیرت مند اور تنومند نہیں!!