وہ جسکی موت پر کوئی ہم وطن نہ رویا لیکن 2 غیر ملکی خواتین زار وقطار روتی رہیں ۔۔۔۔۔
میگزین
لاہور (ویب ڈیسک) نامور مضمون نگار عقیل عباس جعفری بی بی سی کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کے سابق بیوروکریٹ اور مصنف م۔ب۔ خالد اپنی کتاب ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ میں لکھتے ہیں کہ ’قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے، ریلوے کے محکمہ میں سپیشل ٹکٹ چیکنگ سٹاف کی بھرتی ہو رہی تھی۔
انٹرویو کے لیے آنے والے امیدواروں کی تعداد آسامیوں سے کہیں زیادہ تھی۔‘’اکاؤنٹ آفیسر کمرے سے باہر نکلے، پہلے تمام امیدواروں کو ایک قطار میں کھڑا کیا پھر حکم دیا کہ مسلمان امیدوار ایک طرف ہو جائیں۔ جب مسلمان علیحدہ کھڑے ہو گئے تو اعلان کیا کہ غیر مسلم جا سکتے ہیں، بھرتی مکمل ہوگئی ہے۔‘انگریز کا دور حکومت تھا، ایک واویلا مچ گیا۔ ہندوستان کے صوبے یوپی میں جہاں یہ ڈرامہ کھیلا گیا تھا ہندو پریس نے زبردست اداریے لکھے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اکاؤنٹ آفیسر نے مسلمان امیدواروں کی بھرتی کا جواز یہ پیش کیا کہ اس محکمے میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے اور اب جو بھرتی کی گئی ہے اس سے ان کا کوٹہ مکمل ہوگیا ہے، یہ اکاؤنٹ آفیسر غلام محمد تھے۔‘م۔ب۔ خالد نے مزید لکھا ہے کہ ’غلام محمد دوسری ورلڈ وار کے دوران حکومت ہند کے وار سپلائز ڈیپارٹمنٹ میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ ماتحت افسروں کے منہ پر فائلیں پھینکنا اور کمرے سے نکال دینا ان کے لیے معمولی بات تھی، اس سلسلے میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی میں کوئی تمیز نہیں برتی جاتی تھی۔ انگریز آفیسر بھی زد میں آجاتے تھے۔‘’بعض اوقات صورتحال خطرناک ہو جاتی تھی مگر وار سپلائز کا شعبہ اتنا اہم تھا کہ غلام محمد جیسا مستعد اور برق رفتار سول سرونٹ نہ صرف گوارا بلکہ ناگزیر تھا۔ دوسری ورلڈ وار کے خاتمے کے بعد ان کی شہرت انھیں حیدرآباد (دکن) لے گئی جہاں انھوں نے ریاست کے وزیر خزانہ کا منصب سنبھالا اور نہ صرف ریاست کے مالی امور بلکہ سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔‘
سنہ 1946 میں عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی شمولیت کے موقع پر انھوں نے محمد علی جناح کو مشورہ دیا کہ وہ وزارت خزانہ اپنے پاس رکھیں اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ یہ مشورہ کتنا مفید تھا۔ ہندوستان تقسیم ہوا تو غلام محمد ٹاٹا انڈسٹریز سے منسلک تھے، جہاں ان کی تنخواہ دس ہزار روپے ماہوار تھی۔ غلام محمد نے محمد علی جناح کی دعوت پر تین ہزار روپے ماہوار کے عوض پاکستان کی وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھال لیا۔‘’ٹاٹا نے انھیں بیس ہزار روپے ماہوار کی پیشکش کی، کئی اور لوگوں نے بھی سمجھانا چاہا مگر غلام محمد نے پاکستان کی محبت میں یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ قیام پاکستان کے بعد انھیں پاکستان کا پہلا بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے پہلے ہی بجٹ سے پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری آئی اور محمد علی جناح نے ان کے انتخاب پر فخر محسوس کیا۔‘16 اکتوبر 1951 کو وزیراعظم لیاقت علی خان راولپنڈی میں نشانہ بن گئے۔ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے وزیراعظم کا منصب سنبھال لیا اور شاہ برطانیہ نے ان کی جگہ غلام محمد کو پاکستان کا گورنر جنرل مقرر کر دیا۔ یہ پاکستان میں بیورو کریسی کی اولین فتح تھی۔اکبر ملک نے اپنی کتاب ’کہانی ایک قوم کی‘ میں لکھا ہے کہ ’جب خواجہ ناظم الدین اور ان کے دیگر رفقائے کار نے غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے کا حلف دلایا تو اس وقت غلام محمد کی صحت جواب دے چکی تھی۔ وہ اکثر بیمار رہتے، فالج کے اٹیک نے انھیں چڑچڑا کر دیا تھا۔ ان کی گفتگو اور کردار میں مخبوط الحواسی کے آثار بھی نمایاں ہورہے تھے۔۔۔۔
وہ اپنا بیشتر وقت اپنی ایک غیر ملکی سیکرٹری مس روتھ بورل کے ساتھ گزارتے، اس کے باوجود ان کو اقتدار کی شدید بھوک اور پیاس تھی۔‘کم و بیش یہی بات قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’شہاب نامہ’ میں لکھی ہے کہ ’غلام محمد کے مقاصد میں اولیت کا شرف ہوس اقتدار کو حاصل تھا، دوسرے درجے پر صنف نازک کی طرف ان کا شدید رجحان تھا جو اکثر مریضانہ حد تک پہنچ جایا کرتا تھا۔‘’اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ خود غرضی خود سری، ہٹ دھرمی، دھونس، دھاندلی اور ایچ پیچ کے سمیت ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جن لوگوں نے ان کے ساتھ وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں کام کیا تھا ان پر غلام محمد کے کردار کے یہ سب پہلو روز روشن کی طرح عیاں تھے۔ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی جب انھیں بستر علالت سے اٹھا کر گورنر جنرل کی کرسی پر بٹھا دیا گیا تو یہ ایک ایسی غلطی کا ارتکاب تھا جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔‘اکبر ملک نے لکھا ہے کہ ’ناظم الدین کا خیال تھا کہ بیماری کی وجہ سے وہ (غلام محمد) زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے اور محض برائے نام گورنر جنرل ہوں گے لیکن خواجہ ناظم الدین کا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور غلام محمد نہایت ہی سخت جان نکلے اور انھوں نے بطور گورنر جنرل ایسے اقدامات کیے کہ پاکستان کی اساس متزلزل ہو گئی۔‘’پاکستان کے عام شہریوں کو اس بات کی مطلقاً خبر نہ ہوئی کہ پاکستان ایک نہایت ہی خطرناک اور سیاسی بحران سے دوچار ہے۔
یہ بحران ان اختلافات کا شاخسانہ تھا جو گورنر جنرل غلام محمداور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے درمیان موجود تھے۔‘’ناظم الدین کا خیال تھا کہ غلام محمد جلد ہی اپنی خطرناک بیماری کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے لیکن یہ سخت جان شخص مرنے سے انکار کرتا رہا۔ جب لیاقت علی خان پاکستان کے وزیراعظم تھے تو برطانوی پارلیمانی روایات کے مطابق سربراہ مملکت خواجہ ناظم الدین محض ایک نمائشی سربراہ تھے اور تمام اختیارات کا منبع وزیراعظم کی ذات تھی لیکن جب غلام محمد گورنر جنرل بنے تو انھوں نے تمام برطانوی روایات کوبالائے طاق رکھ دیا اور کاروبار حکومت میں وزیراعظم کے اختیارات میں مداخلت کرنے لگے۔‘خود خواجہ ناظم الدین بھی مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ سنہ 1952 میں ملک میں قحط کا سا سماں پیدا ہوا جس کے بعد عوام نے انھیں قائد قلت کا خطاب عطا کیا۔ کچھ لوگ ان کی خوش خوری کی وجہ سے انھیں خواجہ ہاضم الدین کہنے لگے۔جنوری 1953 میں کراچی کے طلبہ سراپا احتجاج بن گئے اور اس میں بڑا نقصا ن ہوا ۔ اگلے ہی مہینے لاہور میں ختم نبوت کی تحریک نے زور پکڑا اور بدامنی فکی وجہ سے اس شہر میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا، جس کے محرک سیکرٹری محکمہ دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا تھے۔ادھر مشرقی پاکستان میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے کے سلسلے میں لسانی تنازع جڑ پکڑ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب غلام محمد، مشتاق احمد گورمانی، چوہدری محمد علی اور میجر جنرل اسکندر مرزا اس قدر طاقت پکڑ چکے تھے کہ نہایت ہی اہم فیصلے وزیراعظم کو اطلاع دیے بغیر کر لیے جاتے تھے۔
اکبر ملک کے مطابق ’یہ صورتحال خواجہ ناظم الدین کے لیے بڑی پریشان کن تھی۔ اپریل 1953 کے وسط میں انھوں نے اپنی کابینہ کے چند ارکان سے، جن پر ان کو بہت اعتماد تھا، مشاورت کی۔ خواجہ ناظم الدین نے ان کو بتایا کہ کابینہ کے کچھ وزیر ان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کی سازش کر رہے ہیں اور گورنر جنرل غلام محمد اس سازش میں پیش پیش ہیں۔ اس مجلس مشاورت میں یہ طے پایا کہ ملکہ برطانیہ کو فوری طور پر درخواست کی جائے کہ وہ غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے سے علیحدہ کر دیں۔‘’پاکستان میں اس وقت گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ بطور عبوری آئین کے نافذ تھا اور اس کی رو سے ملکہ برطانیہ ہی گورنر جنرل کو برطرف کرنے کی مجاز تھی۔ خواجہ ناظم الدین نے کابینہ کے جن ارکان سے مشاورت کی تھی ان میں وزیر خزانہ چوہدری محمد علی بھی شامل تھے جن پر وزیراعظم کے بے شمار ذاتی احسانات تھے مگر انھوں نے ان احسانات کا پاس نہ رکھتے ہوئے یہ راز غلام محمد کے کانوں تک پہنچا دیا۔‘غلام محمد یہ اطلاع پا کر آپے سے باہر ہو گئے، انھوں نے 17 اپریل 1953 کی شام خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ کو گورنر جنرل ہاؤس بلا کر پہلے ان سے استعفے طلب کیے مگر جب ظفر اللہ خان کے علاوہ کوئی بھی مستعفی ہونے پر آمادہ نظر نہ آیا تو انھوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ کو برطرف کر دیا۔یہ وہ سیاہ دن تھا جب پہلی مرتبہ بیورو کریسی کے ایک نمائندے نے ایک سیاست دان کا تختہ الٹا تھا۔
اسی رات، امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا نے، جو ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے، پاکستان کے تیسرے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔یہاں ایک عظیم المیے کا ذکر نہ کرنا تاریخ سے ناانصافی ہوگی۔ جب خواجہ ناظم الدین کو ان کے عہدے سے برخاست کیا گیا تو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے اکثر زعما نے غلام محمد کے آمرانہ فعل کو نہایت ہی مناسب قدم قرار دیا۔ بہت سے مسلم لیگی قائدین غلام محمد اور اس کے ٹولے کے نہ صرف ہم نوا ہو گئے بلکہ ان کی زیر قیادت حکومت میں بھی شریک ہو گئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مسلم لیگی رہنمائوں کی یہ سب سے بڑی لغزش تھی کہ اپنے قائد ناظم الدین کی برخواستگی کے بعد انھوں نے رسمی طور پر بھی احتجاج نہ کیا۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’اگر مسلم لیگ پارلیمنٹری پارٹی میں کچھ دم خم ہوتا تو اس کا فرض تھا کہ وہ گورنر جنرل کے اقدام کی مذمت کر کے خواجہ ناظم الدین پر اپنے اعتماد کی توثیق کر دیتی لیکن مسلم لیگ کا زوال شروع ہو چکا تھا اس لیے اس نے اپنے منہ پر یہ چپت بھیگی بلی بن کر قبول کر لی اور گورنر جنرل کے نامزد وزیراعظم محمد علی بوگرا کو بڑی فرماں برداری سے اپنا لیڈر منتخب کر لیا۔‘اکبر ملک نے لکھا کہ ’محمد علی بوگرا ممکن ہے وزارت خارجہ کے امور کے ماہر ہوں مگر وہ ہرگز وزیراعظم بننے کے قابل نہیں تھے۔ شروع شروع میں وہ غلام محمد کے نہایت ہی اطاعت گزار اور وفادار رہے۔ وہ جب بھی آزادانہ طور پر کاروبار مملکت کے فیصلے کرنے کی جسارت کرتے تو غلام محمد برہم ہو جاتے اور ان کی سرزنش کرتے۔‘
ابتدا میں تو بوگرا اس توہین کو برداشت کرتے رہے مگر پھر انھوں نے پر پرزے نکالنے شروع کیے۔ وہ کٹھ پتلی اور غلام نہیں رہنا چاہتے تھے، وہ اپنے دوستوں اور مداحوں سے اکثر کہنے لگے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں غلام محمد کے آمرانہ رویے سے نجات پاؤں اور اپنی غلامانہ حیثیت کو ختم کروں لیکن انھیں خدشہ تھا کہ اگر انھوں نے اپنے اختیارات استعمال کرنا چاہے تو انھیں بھی خواجہ ناظم الدین کی طرح راستے سے ہٹا دیا جائے گا۔‘اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے محمد علی بوگرا نے دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین اور اسمبلی کے بعض ارکان کی اعانت سے جن کی قیادت محمد ہاشم گزدر کر رہے تھے، ایک ایسے وقت میں جب گورنر جنرل وفاقی دارالحکومت سے دور ایبٹ آباد کے مقام پر آرام کر رہے تھے، راتوں رات اسمبلی سے ایک ایسا بل منظور کروا لیا جس کی رو سے گورنر جنرل کے ان اختیارات کو ختم کر دیا گیا تھا جن کی مدد سے وہ مرکزی کابینہ کو برطرف کر سکتے تھے۔شہاب صاحب کے مطابق ’یہ قدم نہایت مناسب اور صحیح تھا لیکن جس طریقے سے یہ قدم اٹھایا گیا وہ مضحکہ خیز تھا۔ اسمبلی کے ارکان مفلوج غلام محمد سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ انھوں نے یہ کارروائی چوروں کی طرح دبے پاؤں چھپ چھپا کر کی۔‘ظاہرہے، گورنر جنرل غلام محمد، محمد علی بوگرا کی اس حرکت پر بڑے چراغ پا ہوئے۔ ادھر محمد علی بوگرا کے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ وہ غلام محمد کے غصے کی پروا کیے بغیر امریکا دورہ پر روانہ ہو گئے۔
غلام محمد نے بوگرا کی اس غیر حاضری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہت جلد جوڑ توڑ کے ماہر ترین افراد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان افراد میں چوہدری محمد علی، مشتاق احمد گورمانی اور اسکندر مرزا سرفہرست تھے۔ادھر محمد علی بوگرا کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ فوراً وطن واپس پہنچیں۔ 24 اکتوبر1954 کو محمد علی بوگرا، اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان اور ابوالحسن اصفہانی کی معیت میں وطن واپس پہنچے۔ ایئر پورٹ پر ہی انھیں فوج نے اپنی تحویل میں لے کر غلام محمد کے حضور پیش کر دیا جہاں انھوں نے بڑی بے بسی کے عالم میں دستور ساز اسمبلی توڑنے اور دوبارہ وزیر اعظم بننے کے احکامات پر دستخط کر دیے۔نئی کابینہ میں جن افراد کا اضافہ ہوا تھا ان میں بری فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان سرفہرست تھے جو اس کابینہ میں وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ دیگر نئے وزرا میں اسکندر مرزا، مرزا ابوالحسن اصفہانی اور میر غلام علی تالپور شامل تھے جبکہ پرانے وزرا میں سے چوہدری محمد علی، ڈاکٹر اے ایم مالک، غیاث الدین پٹھان’ مرتضیٰ رضا چوہدری اور سردار امیر اعظم کابینہ میں برقرار رکھے گئے تھے۔ بعد میں اس کابینہ میں بعض دیگر وزرا کا بھی اضافہ ہوا تھا۔24 اکتوبر1954 کو گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے اور ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اعلان کیا تو ان کے اس اقدام کا ملک کے بہت سے سیاستدانوں نے خیر مقدم کیا۔ ان سیاست دانوں میں ممتاز دولتانہ، سردار عبدالرشید، عبدالستار پیرزادہ،
محمود علی قصوری، میررسول بخش تالپور، غلام حسین سومرو اور مخدوم زادہ حسن محمود شامل تھے مگر اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ٹوٹنے والی اسمبلی دو حیثیتوں کی مالک تھی، وہ دستور ساز اسمبلی بھی تھی اور قانون ساز اسمبلی بھی۔ اس کی اولین حیثیت میں مولوی تمیز الدین اس کے صدر تھے جبکہ دوسری حیثیت میں وہ اس کے سپیکر تھے۔ مولوی تمیز الدین کے لیے اسمبلی کی تحلیل کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنا بڑا جرات مندانہ اقدام تھا کیونکہ اس کا مطلب گورنر جنرل اور ملک کے مقتدر حلقوں کی ناراضی مول لینا اور عتاب کو دعوت دینا تھا اور واقعتاً ایسا ہوا بھی۔11 نومبر1954 کو چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے فرمان کے خلاف مقدمہ کی سماعت کی درخواست منظور کر لی تاہم مولوی تمیز الدین کو اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ عدالت تک پہنچنا بھی ان کے لیے بڑا مشکل ثابت ہوا کیونکہ خفیہ ایجنسیاں ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کر رہی تھیں۔مجبوراً انھیں اپنی قیام گاہ کے پچھلے دروازے سے برقعہ اوڑھ کر رکشے کے ذریعے کورٹ پہنچنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ان کے وکیل منظر عالم کو عدالت کے دروازے پر ہی عدالتی تحویل میں لے لیا گیا۔ اگر سندھ چیف کورٹ کے اس وقت کے ڈپٹی رجسٹرار روشن علی شاہ (جن کے صاحبزادے سجاد علی شاہ بعد ازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے) ہمت کا مظاہرہ نہ کرتے تو مولوی تمیز الدین کے لیے عدالت میں اپنی پٹیشن پیش کرنا بھی مشکل ہوتا۔
روشن علی شاہ نے نہ صرف پٹیشن کے داخل کیے جانے کو ممکن بنایا بلکہ مولوی تمیز الدین کے وکیل (جناب منظر عالم) کی گرفتاری کی اطلاع بھی چیف جسٹس کانسٹنٹائن تک پہنچائی، جن کی ہدایت پر آئی جی پولیس کو انھیں رہا کرنا پڑا۔مولوی تمیز الدین کے پاس مقدمے کے اخراجات کے لیے رقم بھی نہیں تھی مگر ان کے وکلا نے فیس نہیں لی۔ اس مقدمے کے لیے مولوی تمیز الدین کی قانونی ٹیم نے انگریز وکیل ڈی این پرٹ کی خدمات بھی حاصل کیں اور ان کی فیس اور ہوٹل میں قیام کے اخراجات جو ایک ہزار پاؤنڈ بنتے تھے، انشورنس کے کاروبار سے وابستہ معروف شخصیت روشن علی بھیم جی نے ادا کیے۔27 مارچ 1955 کو گورنر جنرل پاکستان جناب غلام محمد نے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر کے وسیع اختیارات سنبھال لیے جس کے ذریعے دستور ساز اسمبلی کے منظور کردہ 35 مسودات قانون کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔گورنر جنرل نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ 1935 میں کچھ ترمیمات بھی کیں جن کے ذریعہ انھیں پاکستان کے آئندہ سال کے بجٹ منظور کرنے، مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو متحد کر کے ایک صوبہ بنانے اور مشرقی بنگال کا نام مشرقی پاکستان رکھنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔ ان کے علاوہ ملک کا نیا آئین تیار کرنے اور اس سے متعلقہ دوسرے مسائل طے کرنے کے اختیارات بھی گورنر جنرل ہی کو حاصل ہو گئے۔10 مئی 1955 کو فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں فیڈرل کورٹ کی مکمل بنچ نے کثرت رائے سے چیف کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا
جو انھوں نے دستور ساز اسمبلی کی بحالی کے سلسلہ میں سنایا تھا۔فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس محمد منیر، جسٹس ابو صالح محمد اکرم، جسٹس محمد شریف اور جسٹس ایس اے رحمن نے بعض قانونی ابہام کا دانستہ یا نادانستہ سہارا لیتے ہوئے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے حکم کو برقرار رکھا جبکہ بنچ میں شامل پانچویں جج جسٹس اے آرکارنیلئس نے اپنے ساتھی ججوں سے اتفاق نہیں کیا اور اپنے طویل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔سپریم کورٹ کا مذکورہ فیصلہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے ارفع مقاصد کے لیے زہر قاتل کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ سوال سالہا سال سے موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ محض ایک قانونی فیصلہ تھا یا اس کے پیچھے سیاسی محرکات بھی کار فرما تھے۔ جوں جوں حقائق سامنے آتے جا رہے ہیں ویسے ویسے اس فیصلے کی سیاسی نوعیت، اس میں بیان کردہ قانونی موشگافیوں کو بے معنی اور ناقابل اعتبار ثابت کرتی جا رہی ہے۔اس فیصلے کے سیاسی ہونے کے ضمن میں سب سے اہم شہادت کسی اور نے نہیں بلکہ خود چیف جسٹس، جسٹس محمد منیر نے ہی فراہم کی۔ انھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ پر لاہور بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے 22 اپریل 1960 کو اعتراف کیا تھا کہ فیڈرل کورٹ کا فیصلہ حالات کے دباؤ کا نتیجہ تھا اور یہ کہ سندھ چیف کورٹ نے اسمبلی کی بحالی کا جو حکم دیا تھا اس حکم پر حکومت کو بدامنی کے بعد ہی عملدرآمد پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔
جسٹس منیر کے یہ الفاظ تو اور بھی زیادہ عدلیہ کی بے بسی کے مظہر تھے کہ ’اس مقدمے نے ججوں کو جس ذہنی اذیت سے دوچار رکھا الفاظ اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں اور دنیا میں کبھی بھی ججوں کو ایسے عمل سے نہیں گزرنا پڑا ہو گا جسے عدالتی ایذا رسانی قرار دیا جاسکتا ہے۔‘18مئی 1955 کو کراچی میں مقامی اداروں اور انجمنوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد گورنر جنرل، غلام محمد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وفد کی جانب سے پاکستان اینٹی کمیونسٹ فرنٹ کے سربراہ مسٹر مظفر حسین اور پاکستان برادرہڈ کے صدر مسٹر اے ایم قریشی نے گورنر جنرل کی خدمت میں دو سپاسنامے پیش کیے جن میں قوم اور اسلام نیز پاکستان کو کئی مرتبہ لاقانونیت، افتراق اور انتشار سے محفوظ رکھنے اور بددیانت، نااہل اور خود ساختہ اسمبلی سے بچانے پر ہزایکسیلنسی کی اعلیٰ خدمات کو سراہا گیا۔ وفد نے گورنر جنرل سے استدعا کی کہ وہ ’قوم‘ کی جانب سے ازراہ کرم ’محافظ ملت‘ کا خطاب قبول فرمائیں۔اپنی جوابی تقریر میں گورنر جنرل غلام محمد نے کہا کہ ’میرا مزاج اس قسم کے خطابات کے حق میں کبھی نہیں رہا لیکن چونکہ یہ خطاب میری قوم نے دیا، اس لیے میں سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی اسلام اور پاکستان کی خدمت کے لیے وقف کر دی اور میں خوش ہوں کہ آپ میری خدمت کو پسند کرتے ہیں۔‘28 مئی 1955 کو غیر معمولی سرکاری گزٹ میں گورنر جنرل جناب غلام محمد نے آئینی کنونشن کے حکم کو منسوخ کر کے نئی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ دستور ساز اسمبلی 80 ارکان پر مشتمل ہو گی
ان 80 ارکان میں سے 72 ارکان کو صوبائی اسمبلیاں، کراچی کارپوریشن، شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی منتخب کریں گی جبکہ بقیہ آٹھ ارکان کا انتخاب بہاولپور، خیرپور، بلوچ ریاستی یونین، سرحدی ریاستیں اور قبائلی علاقے کریں گے۔غلام محمد کی جسمانی قوت دن بدن ختم ہوتی جارہی تھی۔اب انھوں نے اپنی کھوئی ہوئی جسمانی قوتوں کو بحال کرنے کی ٹھان لی۔قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ ’اس مقصد کے لیے لکھنؤ سے ایک حکیم صاحب طلب کیے گئے، جو نابینا تھے۔ ان کی عمر 105 برس سے اوپر بتائی جاتی تھی ان کے ساتھ ان کا ایک بیٹا بھی تھا جس کی عمر 10 برس کے قریب تھی۔‘’یہ برخوردار حکیم صاحب کی طبابت اور حذاقت کا جیتا جاگتا سرٹیفکیٹ تسلیم کیا جاتا تھا۔ ان کے آتے ہی گورنر جنرل ہاؤس کا ایک حصہ طبی دوا خانے میں تبدیل ہو گیا جہاں چڑوں کے مغز اور بکری کے نوزائیدہ بچے کی یخنی غلام محمد کی خدمت میں بڑے اہتمام میں پیش کیے جاتے۔ اس ساری کارروائی کا اور کوئی نتیجہ تو برآمد نہ ہوا البتہ ان کا بلڈ پریشر مزید بڑھ گیا اور ایک روز وہ اچانک بے ہوش ہو کر کومہ میں چلے گئے۔ حکیم صاحب بوریا بستر سنبھال کر رفو چکر ہو گئے اور گورنر جنرل کو آکسیجن لگا دی گئی۔‘’اس کے بعد ان پر پے درپے نئی بیماریوں کے اٹیکس شروع ہو گئے۔ کبھی تیز بخار، کبھی نمونیہ، کبھی پلورسی، کبھی بلڈ پریشر۔ اب انھیں علاج کے لیے سوئٹزر لینڈ لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ سوئٹزر لینڈ میں علاج معالجے کے بعد ان کی طبیعت کچھ سنبھلی تو
وہ وطن واپس آئے مگر اب ان کی دماغی حالت اور بھی پیچیدگی اختیار کرچکی تھی۔‘ان کی گفتگو تو پہلے ہی کوئی سمجھ نہ پاتا تھا اب وہ قوت فیصلہ سے بھی محروم ہو چکے تھے۔ ایسے میں اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے منصوبہ تیار کیا کہ گورنر جنرل ک وپہلے رخصت پر آمادہ کیا جائے اور پھر ان سے استعفیٰ طلب کرلیا جائے۔ چند ہفتوں کے اندر یہ مسئلہ طے ہو گیا۔19 ستمبر1955 کو کیبنٹ سیکریٹریٹ نے اعلان کیا کہ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے چھ اکتوبر 1955 سے جب ان کی رخصت ختم ہوگی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملکہ الزبتھ نے ان کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے اور حکومت پاکستان کی سفارش پر اسی تاریخ سے قائم مقام گورنر جنرل اسکندر مرزا کو گورنر جنرل مقرر کرنا منظور کر لیا گیا ہے۔اسی شام گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اپنے ایک بیان میں جو ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا، اعلان کیا کہ ’ان کی صحت، اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ گورنر جنرل کے عہدے پر مزید فائز رہیں۔ اس لیے وہ اس عہدے کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔‘ملک غلام محمد نے اپنے نشری پیغام میں مزید کہا ’میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اگر پاکستان ختم ہو گیا تو کون زندہ رہ سکے گا اور پاکستان زندہ رہا تو کون مرسکے گا۔ میں آج پھر اس بات کو دہراتا ہوں اور آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اتحاد کے ذریعہ خود کو مستحکم بنائیں،وفاداری کے ذریعے ہمت پیدا کریں اور قربانی کے ذریعہ خدمت کریں۔ ہمیں آنے والی نسلوں کے لئے اپنے ملک کو سابقہ روایات اور آئندہ کی توقعات کا ایک شاندار نمونہ بنانا ہے۔‘
گورنر جنرل نے اپنے بیان کے اختتام پر کہا ’میں آپ سے جدا ہوتے ہوئے یہ یقین رکھتا ہوں کہ یوم حساب پر میں جب خدائے رب العزت کے حضور حاضر ہوں گا تو میں بڑی عاجزی کے ساتھ یہ عرض کرنے کے قابل ہوں گا کہ میں نے انسانی قوت کی آخری حد تک اپنے وطن کی دیانتداری کے ساتھ خدمت کرنے کی سعی کی تھی۔‘قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’میں ریڈیو سے یہ پیغام نشر کروا کے باہر نکلا تو سڑک پر مس روتھ بورل اور ان کی ماں کار کے ریڈیو پر یہ پیغام سن کر زار و قطار رو رہی تھیں۔ اس روز غلام محمد کے جانے پر شاید یہی چار آنکھیں تھیں جو اس قدر شدت سے اشکبار ہوئی ہوں اور یہ آنکھیں بھی پاکستانی نہ تھیں۔‘اسی رات قائم مقام گورنر جنرل جناب اسکندر مرزا نے جناب غلام محمد کے اعزاز میں ایک الوداعی ضیافت کا اہتمام کیا، جس میں وزیراعظم، دستور ساز اسمبلی کے سپیکر، سندھ اور پنجاب کے گورنروں، کراچی کے چیف کمشنر دیگر اعلیٰ سرکاری حکام اور جناب غلام محمد کے احباب اور اعزا نے شرکت کی۔اس تقریب کے بعد جناب غلام محمد اپنی بیٹی بیگم حسین ملک کی قیام گاہ نشیمن پر منتقل ہو گئے، یوں غلام محمد کا ہنگامہ خیز دور حکومت اپنے اختتام کو پہنچا۔اگلے روز 20ستمبر 1955 کو حکومت پاکستان نے سبکدوش ہونے والے گورنر جنرل جناب غلام محمد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک غیر معمولی گزٹ جاری کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’جناب غلام محمد نے گورنر جنرل کی حیثیت سے اپنے عہدے کے دوران ملک کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں، حکومت پاکستان انھیں بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے۔‘
’جناب غلام محمدسے 18 اکتوبر 1951 کو یہ عہدہ قبول کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ میعاد منصب ایک اہم باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنے منصب کے گراں قدر فرائض اور ذمہ داریوں کی انجام دہی میں جناب غلام محمد نے اعلیٰ درجہ کی انتظامی صلاحیتوں، دور اندیشی اور قوت فیصلہ کی پختگی کا ثبوت دیا۔ موصوف کے اقدامات ہمیشہ اعلیٰ قومی مفاد پر مبنی رہے ہیں۔‘’انھوں نے اپنے ملک کی خدمت کے لیے پورے استقلال کے ساتھ کام کیا اور ایک مستحکم اور ترقی پذیر نظام حکومت قائم کرنے کے ارادے سے پورے انہماک، کامل فہم اور ہمت سے کام لیا جس کی بنا پر انھیں اپنے ہم وطنوں اور پوری دنیا نے بجا طور پر خراج تحسین پیش کیا۔ اس فرض کی انجام دہی میں انھوں نے خود کو بھی مستثنیٰ نہیں رکھا جبکہ وہ جانتے تھے کہ اس طرح وہ اپنی صحت کوخطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ملک میں جناب غلام محمد کی خدمات کی بڑی کمی محسوس کی جائے گی۔ حکومت کو قومی امید ہے کہ انھیں عاجل و کامل صحت حاصل ہو جائے گی۔‘قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ ’وفات سے چند روز پہلے ان پر ایک عجیب دھن سوار ہو گئی۔ انھوں نے اپنے ڈاکٹر کرنل سرور سے کہا کہ وہ ہوائی جہاز چارٹر کر کے دیوا شریف جانا چاہتے ہیں۔ دیوا شریف لکھنؤ کے قریب جگہ ہے جہاں حاجی وارث علی شاہ دفن ہیں۔ یہ بزرگ غالباً بیسویں صدی کے اوائل میں فوت ہوئے تھے اور غلام محمد کو ان کے ساتھ گہری عقیدت تھی۔ وہ ان کی تصویر ہمیشہ اپنے بستر کے قریب تپائی پر رکھا کرتے تھے۔‘’انھوں نے ان کی ملفوظات اور سوانح حیات شائع کروانے میں کافی حصہ لیا تھا اور تقسیم سے پہلے کئی بار دیوا شریف میں ان کے مزار پر حاضری دے چکے تھے۔ حاجی وارث علی شاہ کے حالات زندگی پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ درویشانہ اور قلندرانہ وضع کے بزرگ تھے لیکن ان کے مسلک نے مسٹر غلام محمد پر کچھ بھی اثر نہ کیا کیونکہ وہ جب تک جیے حب جاہ اور حب دنیا کا عبرت ناک مجسمہ بن کر جیے۔‘اس روز 29 اگست 1956 کی تاریخ تھی، 61 برس پہلے وہ اسی تاریخ کو پیدا ہوئے تھے۔ اگلے دن انھیں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ گورا قبرستان کراچی کے عقب میں کمبائنڈ سروسز کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔(بشکریہ : بی بی سی )