اس عورت پر اعتبار مت کرنا جو تیرے سامنے
اس عورت پر اعتبار مت کرنا جو تیرے سامنے
اناالحق منصور کے لب پر نور تھا میں خدا ہوں فرعون کے لب پر جھوٹ تھا جس میں خوشبو میں کیوں نہ ہو جب اس پر موت آتی ہے تو اس میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے دنیا کی جھوٹی تعریفوں سے بزرگوں کی کڑوی باتیں زیادہ مووی ایک دفعہ مولانا جلال الدین رومی کے پاس ایک مریض آیا مولانا نے پوچھا کیسی گزر رہی ہے مری دولہا مل جائے تو شکر کرتے ہیں نہ
ملے تو سفر مولانا نے فرمایا ایسا تو بغداد کے کتے بھی کرتے ہیں آپ کی ہے نہ ملے تو شکر چاندنی رات میں چاند کو کتوں اور ان کے بھونکنے کا کوئی خوف نہیں ہوتا ہے اور چاند اپنی روشنی بکھیر کر اپنا کام کر رہا ہے جب کسی کو تیری فکر نہ رہے تو پھر تو اپنا کام خود کر لیا کر اولیاء اللہ کی قوت بھی منجانب اللہ ہوتی ہے یہ کسی مادی چیز کی محتاج نہیں ہوتی
آج ہم بھی نورانی ہوتے ہیں اور وہ انسانی روح اور فرشتوں سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں شعر کی طرح بہادری کا دعوی کرنے سے بہتر ہے کہ تم اپنے نفس پر قابو پا لو جب چھوڑ کے چلے جاتے ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ صرف اللہ ہی کافی ہے وہ بھی کیا آنکھ ہے جس نے بنایا ہو امتحانوں میں رسوائی کے سوا اس کے لئے کچھ بھی نہیں ہے اور
اس عورت پر اعتبار مت کرنا جو تیرے سامنے رونے لگ جائے روتی ہوئی عورت پر غلطی سے بھی بھروسہ مت کرنا یہ اس کا ایک بچایا ہوا چال ہے جو اس میں پھنس گیا اس کے لئے زبردست نقصان ہے تعلیم دینا تو انسانی فیل ہے لیکن طالب کے اعضا کا اثر قبول کرنا اور اس میں قبولیت کی صلاحیت پیدا کرنا صرف اللہ ہی کا کام ہے یاد رکھو کہ تم اپنے نفس کو دودھ چھڑا دو یعنی اپنی نفسانی خواہشات ترک کر دو