بیٹی کے شادی کے دن بیگم بیمار ہوگئیں۔۔ ان کی دوائیں بھی آج تک سنبھال کر رکھتا ہوں! بیوی کے انتقال کے بعد مظہر عباس پر کیا گزری؟
“بیگم کو کبھی کبھار معدے میں تکلیف ہوتی تھی لیکن پھر کسی کے مشورے پر چیک اپ کروایا تو پتہ چلا ان کا جگر خراب ہوگیا ہے۔ اب بیگم کے انتقال کو ڈیڑھ سال گزر چکا ہے لیکن یقین نہیں آتا کہ وہ ہم میں موجود نہیں“
یہ کہنا ہے مظہر عباس کا جن کی بیگم ارم مظہر کا انتقال تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ہوا ہے۔ خواتین کے مقابلے میں مردوں کی جیون ساتھی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان پر جو گزرتی ہے اس موضوع پر گفتگو نہ ہونے کے برابری ہےلیکن ماریہ میمن نے گزشتہ ہفتے اپنے پوڈکاسٹ میں اس موضوع کو اٹھایا اور معروف صحافی مظہر عباس سے اس حوالے سے تفصیلی بات چیت بھی کی جو ہم اپنے قارئین کو یہاں بیان کررہے ہیں۔
ابھی تک ان کی وفات کا یقین نہیں آتا
مظہر عباس نے بتایا کہ اگرچہ ان کی شادی ارینج میرج تھی لیکن بیگم کے ساتھ ان کا 31 برسوں کا ساتھ تھا جو اچانک ختم ہوگیا اس کا انھیں دکھ تو ہے ہی لیکن اکثر انھیں یقین نہیں آتا کہ ان کی ساتھی اب دنیا میں نہیں۔ مظہر عباس اور ان کی اہلیہ کی دو بیٹیاں ہیں اور وہ بھی والدہ کی وفات کے صدمے کو روز اول کی طرح محسوس کرتی ہیں۔
بڑی بیٹی کی شادی کے دوران طبعیت خراب ہوئی
معروف صحافی نے بتایا کہ بڑی بیٹی کی شادی تھی جس دوران اچانک اہلیہ کی طبعیت خراب ہوئی اور انھیں اسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں چند دن وہ ایڈمٹ رہیں۔ جس دن بیگم نے مظہر کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا انھیں محسوس ہوگیا تھا کہ اب وہ چلی جائیں گی۔
جن مردوں کی بیویاں انتقال کرجائیں ان پر کیا گزرتی ہے؟
معاشرے میں بیوہ خواتین کو ایسے کڑے وقتوں میں آس پاس کے لوگ اور رشتے دار سہارا دیتے ہیں لیکن جن مردوں کی بیویاں انتقال کرجائیں کیا کوئی ان کی بھی مدد کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں مظہر نے کہا کہ اہلیہ کے وصال کے بعد جب وہ کسی چھوٹے موٹے کام کے لئے باورچی خانے جاتے تھے تو لوگ کہتے تھے کہ اب آپ کو دوسری شادی کے بارے میں سوچنا چاہئیے۔ مظہر عباس کہتے ہیں لوگوں کو اس حوالے سے تھوڑا حساس ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ جس کی زندگی ہے وہی اپنے حالات کو مدنظر رکھ کر بہتر فیصلہ کرسکتا ہے اور لوگوں کے اس طرح کے مشورے اکثر دل دکھانے کا سبب بنتے ہیں۔
اہلیہ کی دوائیں ابھی تک سنبھال کے رکھی ہیں
اہلیہ کی یادوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مظہر عباس نے بتایا کہ یادیں تو بہت سی ہیں لیکن انھوں نے یادگار کے طور پر مرحومہ کی دوائیں اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں جبکہ ان کی بیٹیاں جو ماں سے بہت زیادہ قریب تھیں اس بارے میں بات نہیں کرپاتیں اور کہتی ہیں کہ وہ ہماری دوست تھیں اسی وجہ سے ماں کی بہت سی چیزیں انھوں نے سنبھال کر رکھی ہیں۔