سابقہ بہو نے راز فاش کردیے : دبئی کے شاہی خاندان کا اسکینڈل دنیا کے سامنے آگیا
لندن (ویب ڈیسک) دبئی کے حکمران شاہی خاندان کے ایک رکن کی سابق اہلیہ کے وکلاء نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں درخواست دائر کی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کونسل زینب جوادلی اور ان کے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے متحدہ عرب امارات کے حکام کے ساتھ رابطہ کرے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شیخ سعید بن مکتوم بن راشد المکتوم کے ساتھ بچوں کی تحویل کے حوالے سے ہونے والی تلخ لڑائی کے دوران زینب جوادلی کو حکام کی جانب سے تنگ کیے جانے کے ساتھ ساتھ بدسلوکی اور وارننگز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔شیخ سعید بن المکتوم کے وکلاء نے کہا ہے کہ زینب جوادلی ایک نااہل ماں ہیں، زینب جس کی تردید کرتی ہیں۔دبئی کےحکمران شاہی خاندان کے اندر اختلافات سامنے آنے کا یہ تازہ ترین معاملہ ہے۔بی بی سی کو خصوصی طور پر ملنے والی ویڈیو میں زینب درخواست کر رہی ہیں’ براہ کرم میری مدد کریں میں اور میرے بچے خوفزدہ ہیں ہماری زندگی کو خطرہ ہے’۔’ہم پوری طرح بے گھر ہیں
اور دبئی کے ایک ہوٹل میں پھنسے ہوئے ہیں، میرے بچے بے خوف و خطر باہر نہیں نکل سکتے ، ڈر ہے کہ مجھے گرفتار کر لیا جائے گا اور میرے بچے مجھ سے چھین لیے جائیں گے’۔آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی 31 سالہ سابق بین الاقوامی جمناسٹ دبئی سے بات کر رہی تھیں، جہاں وہ 2019 کے آخر میں شیخ سعید سے طلاق لینے کے بعد سے مقیم ہیں، وہ اپنی تین جوان بیٹیوں کے ساتھ صرف اسی خوف سے وہاں رہ رہی ہیں کہ اگر وہ ملک چھوڑ کر چلی گئیں تو وہ شاید انہیں دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں گی۔وہ تقریباً تین سال سے اپنے سابق شوہر کے ساتھ بچوں کی تحویل کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ان دونوں کی شادی 2015 میں ہوئی تھی۔ یہ لوگ دبئی میں رہتے تھے، اور شیخ سعید حکمران شاہی خاندان
کا حصہ ہیں ، وہ دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کے بھتیجے ہیں۔شہزادی لطیفہ کی کزن کے ساتھ تصویر منظر عام پر آنے کے بعد ان کو آزاد کروانے کی مہم ختم کر دی گئیاقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے مداخلت کی اپنی اپیل میں، برطانیہ میں مقیم زینب کے وکلاء نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی نقل و حرکت اور اظہار رائے کی آزادی دونوں پر قدغن لگا دی گئی ہے، جب کہ انہیں ڈرانے کے حربے استعمال کیے گئے ہیں۔اپیل میں الزام لگایا گیا ہے کہ دو سال قبل جب دبئی پولیس ان کے گھر میں گھس گئی تھی تو زینب جوادلی، ان کے بچوں اور ان کے والدین پر دھاوا بولا گیا تھا۔ زینب نے واقعہ کو لائیو سٹریم کر کے دنیا بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ ان کے والدین اس کے بعد آذربائیجان واپس چلے گئے تھے۔ان کا کہنا ہے
کہ پچھلے تین سالوں میں، ان کے گھر پر پولیس کے ریڈ ، عدالتی سمن اور گرفتاری کے وارنٹ ان کی زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔50 صفحات پر مشتمل دستاویز میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہےکہ ان کے کیس کے ساتھ غیر جانبداری سے نہیں نمٹا گیا یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ مناسب کارروائی کے بغیر ہی بچوں کی تحویل شیخ سعید کو دے دی گئی۔دستاویز میں الزام لگایا گیا ہے کہ زنیب جوادلی کو ‘ غیر منصفانہ، امتیازی اور جانبدارانہ عدالتی عمل’ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ ان کے حق میں آنے والے واحد عدالتی فیصلے کو چند ہی دنوں کے
اندر ‘بغیر مناسب جواز کے’تبدیل کر دیا گیا تھا۔شیخ سعید کے وکیلوں نے دبئی کی عدالت میں دعویٰ کیا ہے کہ زینب جوادلی ایک نا اہل ماں ہیں، جو اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجنے میں ناکام رہی ہیں، ایسی جگہ پر رہ رہی ہیں جو بچوں کے لیے نا مناسب ہے اور اپنی سب سے چھوٹی بچی کی صحت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔زینب جوادلی نے الزامات کو مسترد کیا ہے اور عدالت میں اس کے برعکس ثبوت پیش کیے ہیں۔زینب کا دعوی ہے کہ فی الحال، وہ دبئی کے حکام کے ساتھ تنازعہ میں الجھی ہوئی ہیں – اپنے بچوں کو گھر پر رکھ کر اور انہیں سکول نہیں بھیج رہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ شاید وہ ان سے چھین لیے جائیں اور کبھی واپس نہ آئیں۔
سکول نے اس سے صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے انہیں میٹنگ میں حصہ لینے کو کہا ہے۔وہ اور ان کے وکلاء کا خیال ہے کہ شیخ سعید کو بچوں کی تحویل میں دینے کا حکم کسی بھی وقت آ سکتا ہے، حالانکہ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف ایک اور اپیل دائر کی ہے۔دبئی میں قانونی نظام کا تجربے رکھنے والے ایک اور ذریعے کا کہنا ہے کہ زینب جوادلی نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ حکمران شاہی خاندان کے لوگو ں کی سابقہ بیویوں کے مقدمات کے طرز پر فٹ بیٹھتا ہے۔
بی بی سی کی حاصل کردہ ویڈیو میں وہ کہتی ہیں، ‘ہم اپنے گھر میں یرغمال ہیں۔ان کے وکلاء میں سے ایک، روڈنی ڈکسن کا کہنا ہے: ‘ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی.اس صورت حال کو مزید خراب نہیں ہونے دے سکتے اور اس مسئلے کو تمام فریقین کے بہترین مفاد میں حل کیا جا سکتا ہے’۔بی بی سی نے اس کیس پر تبصرے کے لیے متحدہ عرب امارات کے حکام سے رابطہ کیا ہے، لیکن ابھی تک ان کی جانب سےکوئی جواب نہیں ملا ہے۔