میں نے لالچ میں آکر مردے کے کفن میں اپنی ہی قمیض چھپا ڈالی
میں نے لالچ میں آکر مردے کے کفن میں اپنی ہی قمیض چھپا ڈالی
آج کل کے دور میں نوکری ملنا بہت مشکل ہے مشکل ہی نہیں ہم جیسی عورتوں کے لئے تو ناممکن ہے ہم جہاں بھی جاتی ہیں دھتکار دی جاتی ہیں میری عمر چالیس سال تھی شادی آج سے چھ سال پہلے ہوئی تھی میرا ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور طلاق کے بعد میں اس کا سارا خرچہ خود ہی سنبھالا کرتی تھی ایک دن جب گھر میں فاقے کی نوبت آگئی ساری جمع پونجی ختم ہو گئی تو مجھے خود
ہی گھر سے باہر نکلنا پڑا میں نے سوچ لیا تھا کہ اب میں نوکری لیے بغیر گھر واپس نہیں جاؤں گی گھر میں میرا بھو کا بچہ میرا انتظار کر رہا تھا
میں جب بھی خالی ہاتھ گھر جاتی تو وہ اور مایوس ہو تا میں ان ہی سب سوچوں میں گم تھی کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور بولا تم یہاں کیوں کھڑی ہو تمہیں نہیں پتا اس بازار میں عورتیں نہیں آتی اور آئیں تو اس کا کیا مطلب سمجھا جاتا ہے مجھے
اس آدمی پر بہت غصہ آیا میں نے ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا وہ اپنا گال سہلاتے ہوۓ غصے سے چیخنے چلانے لگاوہاں موجود آس پاس کھڑے لوگ بھی آگئے ہوں میر اتماشہ بن گیا
ان میں ایک جاننے والے فیض بھائی بھی تھے فیض بھائی کی یہاں بہت عزت تھی فیض بھائی نے مجھے دیکھا تو پریشان ہو گئے میری بہن تم یہاں کیا کر رہی ہو فیض بھائی نے مجھے پہن کر بلایا تو
سب لوگ وہاں سے چلے گئے کیونکہ فیض بھائی ایک عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کی بات پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا
وہ یہاں پر موجود مجھے اپنے جنرل سٹور میں لے کر گئے جنرل سٹور ٹھنڈا تھا مجھے پانی پا یا اور بولے بہن تم اس طرح ذلیل و رسوا ہونے والی حرکتیں نہ کروں تم میری بہن ہوں میں نے تمہیں بہت پہلے اپنی بہن بنالیا تھاتمہارا شوہر میرے دوست تھا
اس نے تم کو طلاق دے دی تو میں نے اس سے بات چیت ختم کرنے پر تم سے بات چیت رکھی میں نے اب میں تمہیں کوئی نوکری بتاتا ہوں تم عزت سے وہ نوکری کر واس طرح
اگر تم کسی سے پیسے مانگوں گی یا پھر یوں ہی بلا مقصد بازار میں کھڑے ہو کر نوکری ڈھونڈو گی تو تمہیں کوئی کام نہیں ملے گا الٹالوگ تمہیں غلط سمجھیں گے فیض بھائی میں کیا کروں اس میں میر اقصور