شادی سے پہلے لڑکے کی چھان بین لازمی کرلیں ورنہ ۔۔۔ معاشرہ کب سمجھے گا طلاق یافتہ بیٹی کفن میں لپٹی بیٹی سے بہتر ہے؟ سارہ کیس کے بعد سوشل میڈیا پر لڑکیوں کی شادی سے متعلق نئی بحث چھڑ گئی
اسلام آباد میں شوہر کے ہاتھوں قتل کے بعد سارہ انعام کو انصاف دو کے عنوان سے سوشل میڈیا پر ایک مہم چل رہی ہے اور یہ پہلی بار نہیں بلکہ اس سے پہلے نور مقدم کو انصاف دلوانے کیلئے
بھی اس طرح کی مہم چلی تھی اور کئی خواتین کو انصاف دلوانے کیلئے سوشل میڈیا پر اس طرح کی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں تاہم افسوس کی بات تو یہ ہے کہ خواتین سے زیادتیوں اور قتل و غارت کا سلسلہ کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
دین اسلام میں تو بیٹیوں کو انتہائی اہمیت اور عزت دی جاتی ہے۔ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جب حضرت فاطمہؓ تشریف لاتیں تو اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم بھی استقبال کوکھڑے ہوتے تھے کہ میری بیٹی آئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں صرف نصیب والے ماں باپ کو ملتی ہے لیکن افسوس کہ کچھ بد نصیب بیٹیاں ظلم و وحشت کی چکی میں پس کر موت کی وادیوں میں اتر جاتی ہیں۔
بیٹی کے پیدا ہوتے ہی والدین کو اس کی رخصتی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے اور اکثر والدین جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی بیٹیوں کو بیاہنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں
یہ بھی عام ہے کہ بیٹیوں کو رخصت کرتے وقت یہ کہا جاتا تھا کہ جس گھر میں تمہاری ڈولی جارہی ہے وہاں سے جنازہ ہی نکلے اور اس حکم کو پورا کرنے کیلئے پھول جیسی نازک بیٹیاں ظلم و بربریت سہتی رہتی ہیں لیکن پلٹ کر نہیں آتیں۔
سارہ انعام کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر یہ بات زیر گردش ہے کہ جب آپ اپنی بیٹی کو کسی اجنبی کو دے رہے ہوں تو اس کی تعلیم جاننے اور وہ کتنے پیسے کماتا ہے، اس کا گھر ہے یا نہیں کہ جاننے سے پہلے، یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ انسان ہے یا نہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کہتے ہیں کہ اپنی شادی شدہ بہن پر نظر رکھیں۔ اسے بتاتے رہیں کہ ہمارے گھر کے دروازے تمہارے لیے کھلے ہیں۔ اگر آپ اسے اپنے شوہر یا سسرال والوں کے ہاتھوں تکلیف محسوس کرتے ہوئے دیکھیں تو اسے کہیں کہ سمجھوتہ نہ کرے۔ اس سے کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں کیونکہ مردہ بیٹی سے طلاق یافتہ بیٹی بہتر ہے۔
سینئر اینکر پرسن مہر بخاری کہتی ہیں کہ سارہ اور میں کینیڈا میں ساتھ پڑھتے رہے، سارہ پیار کرنے والی، نرم دل اور بہت شفیق انسان تھی، اس نے بہترین جگہوں پر کام کیا، دنیا کا سفر کیا اور اب گھر آباد کرنے کی خواہش تھی۔
اینکر عائشہ سہیل کہتی ہیں کہ جب تک اِس معاشرے میں ہم مردوں کے غیر مناسب رویوں کو جسٹیفائی کریں گے تب تک ہماری خواتین ایسے ہی اِن وحشیوں کے رحم و کرم پر رہیں گی۔ اپنے مردوں کو بچپن سے بتائیں کہ عورت کی عزت اُنکی عزت کے برابر ہے۔ یہ نہ کہیں کہ عورت ہے تو مرد کے رویوں کو برداشت کریں۔
یہ حقیقت ہے کہ طلاق کو معاشرے میں زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کفن میں لپٹی بیٹی سے طلاق یافتہ بیٹی کہیں زیادہ بہتر ہے، سارہ کے شوہر شاہنواز کو پہلی دو بیویاں چھوڑ کر جا چکی ہیں جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ شائد شاہنواز خواتین کے معاملے میں زیادہ اچھا انسان نہیں تھا۔
اس سے پہلے اسلام آباد میں ہی سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی کو ایک رئیس زادے ظاہر جعفر نے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا گو کہ عدالت قاتل کو سزائے موت سنا چکی ہے
لیکن قانونی کھیل ابھی بھی جاری ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اس بات پر بھی بحث کررہے ہیں کہ اگر ظاہر جعفر اور ایسے دوسرے قاتلوں کی سزاء پر عمل ہوجاتا تو شائد سارہ انعام جیسی معصوم لڑکی وحشت اور بربریت کا شکار نہ ہوتی۔