اچھا تو یہ بات تھی! وہ کونسا پاکستانی بزنس مین ہے جس کی وجہ سے جوبائیڈن پاکستان سے ناراض ہوگئے؟ تہلکہ خیز انکشاف
اسلام آباد (نیوز ڈیسک )سابق وزیرداخلہ سینیٹر رحمان ملک نے کہا ہے کہ امریکا میں پاکستانی سفارتخانہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کیلئے استعمال ہوا جوبائیڈن کی ناراضگی کا باعث ہے۔
صدارتی انتخاب میں ایک پاکستانی بزنس مین نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کو ٹرمپ کے الیکشن آفس کے طور پر استعمال کیا اور جب اس بات کا علم صدر جوبائیڈن کو ہوا تو ان کا موڈ خراب ہوگیا۔
اس بات کا انکشاف ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیرِداخلہ رحمان ملک نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ا ور وزیر خارجہ کو خط لکھ کر اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔اس وقت کے سفیر سے پوچھنا چاہیئے کہ آپ کو پاکستان کا سفارت خانہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں استعمال کرنے کی اجازت کس نے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان برف نہیں پگھلی کیوں کہ اگر پگھلی ہوتی تو اب تک جوبائیڈن کی کال آگئی ہوتی
رحمان ملک نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ دنیا سمجھتی ہے کہ ہم نے طالبان کا ساتھ دیا جسکی وجہ سے وہ کابل پر قابض ہوگئے حالانکہ افغان فوج نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ اشرف غنی، امر اللہ صالح اور انکے دیگر ساتھی مرتے دم تک لڑنے کا دعوہ کررہے تھے مگر سب سے پہلے بھاگے۔
انھوں نے کہا کہ اگر دنیا نے اس وقت افغانستان کا ساتھ نہ دیا تو وہاں ایک بحران آجائے گااور وہ دنیا کا سب سے بڑا دہشتگردوں کا گڑھ بن جائے گا۔سینیٹر رحمان ملک نے امریکہ ، پاکستان ، برطانیہ ، چین ، سعودی عرب اور افغانستان کے اہم ارکان پر مشتمل بین الاقوامی مصالحتی کمیشن (RCI) کی تشکیل کی تجویز پیش کی تاکہ افغانستان کے حل کے لیے مفاہمتی منصوبہ دیا جائے۔ پی ڈی ایم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رحمان ملک کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اگر شو کاز نوٹس واپس لے لیتا تو پیپلز پارٹی کی واپسی تھی۔
انھوں نے کہا کہ آج کل پاکستان کو بہت سارے مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ ہماری اکانومی بیٹھ چکی ہے، لوگوں کومہنگائی سے ریلیف چاہیئے ان کو بڑی بڑی تقریریں نہیں چاہیئے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کا موازنہ بیرون ممالک سے کرنا بالکل غلط ہے حکومتی نعرے ابھی بھی ہیں کہ مہنگائی نہیں ہوگی لیکن فیصلہ عوام کا ہے اب غریب آدمی روٹی سے بھی محروم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈالر 170 سے 180 تک جائے گا کیونکہ ہم آئی ایم ایف سے کیے وعدے نہیں توڑ سکتے اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو حکومت نہیں چل سکے گی۔