عمران خان کو نااہل کرنے اور میدان سیاست سے آؤٹ کرنے کے لیے کن تین امکانات پر غور ہو رہا ہے ؟
عمران خان کو ادراک ہے کہ انہیں نا اہل کر دیا جائے گا ۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انہیں نا اہل کرنے کے لیے تین راستے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ گذشتہ روز کی پریس
کانفرنس میں انہوں نے کہا فارن فنڈنگ کیس میں سرٹیفیکیٹ کو بنیاد بنا کر انہیں نا اہل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہے۔ نامور کالم نگار اسد اللہ خان اپنے ایک کالم میں لکھتے
ہیں ۔۔۔۔۔۔ انہیں سیاست سے آئوٹ کرنے کے لیے توشہ خانہ کو بھی بنیاد بنایا جا سکتا ہے ۔ نااہلی کا تیسرا راستہ عمران خان کی کردار کشی کے ذریعے منزل کو پہنچتا ہے
۔ عمران خان کو یہ بھی لگتا ہے کہ ان کی نا اہلی کا مقصد انہیں سیاسی طور پر نواز شریف کے برابر لانا ہے تاکہ ان کی سیاست میں واپسی کی راہ ہموار کی جا سکے ۔ عمران خان کو یہ بھی لگتا ہے کہ تالبان پاکستان کی دوبارہ اٹھان اور خیبر پختونخواہ میں وزیروں کو ملنے والی وارننگز بھی اسی سازش کا حصہ ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے
۔ سکرپٹ مگر کون لکھ رہا ہے یہ انہوں نے نہیں بتایا ۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ نااہلی، فوج سے انہیں لڑانے کی کوشش اور تالبان کو دوبارہ استعمال کرنے والا سکرپٹ رائٹر ایک ہی ہے یا نہیں ۔ شہباز گل کی گرفتاری پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان نے نواز شریف ، مریم نواز، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن،
خواجہ آصف اورایاز صادق کے پرانے آڈیو کلپس سنوائے اور سوال کیا کہ ان تمام شخصیات کے بیانات شہباز گل سے زیادہ سخت تھے پھر انہیں گرفتار کیوں نہ کیا گیا۔ یہ سوال تو خود عمران خان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اس وقت ان کی حکومت تھی انہوں نے نواز شریف کے بیانات کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے کارروائی کیوں نہ کی۔ آج رانا
ثنا ء اللہ شہباز گل کے خلاف فورا حرکت میں آئے ،تب وزیر داخلہ شیخ رشید ایاز صادق اور خواجہ آصف کے بیانات کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حرکت میں کیوں نہ آئے تھے۔ وہ کس کے اشارے کا انتظار کر رہے تھے۔ سیاسی قوتوں کی اس لڑائی میں اصل موضوعات سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے ۔معیشت وینٹی لیٹر پہ پڑی ہے۔
ڈالر ڈھائی سو روپے کو چھو کر تھوڑا نیچے آیا تو خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔کوئی ڈھول پیٹنے والوں سے یہ تو پوچھے کہ 178 سے 220 پر جانے کا ذمہ دار کون ہے اور خوش ہونے کی کیا بات ہے ،کیا ڈالر 170 پر واپس آ گیا ہے جو جشن منائے جا رہے ہیں۔ ریل اسٹیٹ انڈسٹری مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ کاروباری حضرات کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اب تک ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا سکے ، ٹھوس کیا
بلکہ رسمی اقدامات بھی نہیں کیے جا رہے۔حکومت پریس کانفرسوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ ہر طرف سے آنے والی سیاسی وارننگز روزانہ کاروباری حضرات کا اعتماد متزلزل کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ایک پریس کانفرنس مسلم لیگ ن کے رہنما کرتے ہیں تو دوسری تحریک انصاف کے لیڈران۔ ایک کی وارننگز کا جواب دوسرے کی پریس کانفرنس میں ملتا ہے ۔انہی سرگرمیوں کو آجکل سیاست کہتے ہیں۔