in

بی بی سی کی خصوصی رپورٹ

بی بی سی کی خصوصی رپورٹ

نامور صحافی شہزاد ملک بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔گذشتہ آٹھ سال سے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کی درخواست کی پیروی کرنے والے اکبر ایس بابر کے بارے میں عوامی حلقوں میں دستیاب معلومات زیادہ تر صرف اس حد تک محدود ہیں

کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اراکین میں شامل تھے جو اپنی پارٹی اور اُس کی پالیسوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔اس رپورٹ میں ہم اکبر ایس بابر کے سیاسی کیریئر اور تحریک انصاف میں بطور بانی رکن اُن کے کردار کے حوالے سے بات کریں گے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اکبر ایس بابر پیشے کے اعتبار سے سول انجینیئر ہیں جبکہ اُن کے والد عبدالمجید بابر فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔اکبر ایس بابر کے بقول اُن کے والد نے سنہ 1965 کی لڑائی میں چھمب جوڑیاں کے محاذ پر ’انڈیا کے خلاف اہم کامیابیاں سمیٹیں‘ اور بعد از ریٹائرمنٹ وہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے سربراہ بھی رہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے

اکبر ایس بابر نے بتایا کہ سنہ 1996 میں جب عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تو اس وقت سابق وزیر اعظم کے فرسٹ کزن عبدالسلام غازی اُن کے پاس آئے اور اس جماعت کے منشور کے حوالے سے انھیں آگاہ کیا۔انھوں نے بتایا کہ عبدالسلام غازی سے ملاقات کے چند دن بعد عمران خان بھی اُن کے گھر آئے تھے۔عمران خان سے ہونے والی اس ملاقات کے بعد اکبر ایس بابر کو بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کا فاؤنڈنگ (بانی) صدر بنا دیا گیا اور سنہ 1996 میں جب پاکستان تحریک انصاف نے کوئٹہ میں جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اکبر ایس بابر کے بقول اُن کی جماعت کے پاس اتنے پارٹی فنڈز دستیاب نہیں تھے کہ وہ تشہیری مہم کی غرض سے پینا فلیکس بینرز بنا سکتے۔

پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے بتایا کہ فنڈز نہ ہونے کے باعث عمران خان کے اُس جلسے سے متعلق تشہری مواد صرف چند فوٹو کاپیوں کی صورت میں تھا جسے کوئٹہ شہر میں چلنے والے رکشوں کے پیچھے چسپاں کر دیا گیا۔اسی جلسے سے متعلق ایک دلچسپ قصہ سُناتے ہوئے اکبر ایس بابر نے بتایا کہ ’اُس وقت کی تحریک انصاف کی صوبائی قیادت عمران خان کا استقبال کرنے کے لیے ایئرپورٹ پہنچی تو تمام مسافر ایئرپورٹ کے اندرونی حصے سے نکل چکے تھے مگر عمران خان کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آ رہا تھا‘’اس دوران ایک شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اپنا تعارف عمران خان کے سیکریٹری کے طور پر کروایا۔‘اکبر ایس بابر کے مطابق عمران خان ہوائی جہاز کے بجائے بذریعہ ٹرین کوئٹہ پہنچ چکے تھے اور وہ ریل سٹیشن سے رکشہ لے کر ایئرپورٹ پہنچے تھے۔اکبر ایس بابر کا کہنا تھا

کہ وہ عمران خان کو وہاں سے لے کر جلسہ گاہ پہنچے۔انھوں نے بتایا کہ سنہ 1997 میں ہونے والے عام انتحابات میں انھوں نے بلوچستان کے ضلع چاغی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا جس میں انھیں 1500 کے لگ بھگ ووٹ پڑے جبکہ عمران خان نے ان انتخابات میں اسلام آباد سمیت قومی اسمبلی کے 18 حلقوں سے الیکشن لڑا تھا لیکن کسی ایک حلقے سے بھی انھیں کامیابی نہیں ملی۔اکبر ایس بابر پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات بھی رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’سنہ 2002 کے عام انتخابات ہو چکے تھے اور اُن میں پاکستان تحریک انصاف نے صرف ایک نشست جیتی تھی اور وہ

عمران خان کی تھی جو پنجاب کے شہر میانوالی سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست بھی جیتی تھی۔‘انھوں نے بتایا کہ ’جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس کے بعد عبدالستار جو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات تھے، مشرف کے دور میں وزیر خارجہ بن گئے جس کے بعد تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات کی ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی اور یہ ذمہ داری میرے پاس سنہ 2011 تک رہی۔‘اکبر ایس بابر کا کہنا تھا

کہ جب عمران خان نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی تو اُن سمیت حامد خان اور مرحوم معراج محمد خان نے عمران خان کے اس اقدام کی حمایت کی تھی۔اکبر ایس بابر نے دعویٰ کیا کہ وہ اُس اجلاس میں شریک تھے جس میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے عمران خان کو وفاقی وزیر بنانے کی آفر کی تھی۔واضح رہے کہ عمران خان یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ سابق فوجی صدر نے انھیں وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی تھی

جس کی پرویز مشرف نے بعدازاں تردید کی تھی۔اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ شروع میں پاکستان تحریک انصاف کا مرکزی دفتر اسلام آباد کے سیکٹر G-6 میں ایک گھر میں ہوتا تھا اور اسی گھر کی بالائی منزل پر عمران خان کا دفتر تھا۔’میں دفتر آتے ہوئے عمران خان کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر لاتا تھا اور شام کو واپسی پر ان کے گھر پر ڈراپ کرتا تھا۔‘اکبر ایس بابر کا

دعویٰ ہے کہ ’ملڑی اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کے بعد عمران خان نے مجھے بتایا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے چھوٹی جماعتوں کو جمع کر کے نیشنل الائنس بنایا جائے گا اور پی ٹی آئی کو دو درجن سیٹیں دلوانے کی یقین دہانی کروائی گئی۔‘بعدازاں سنہ 2002 کے الیکشن کے بعد جب ’کنگ پارٹی‘ (مسلم لیگ ق) بن گئی تو پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے والے متعدد سیاستدان اس نئی بننے والی پارٹی میں شامل ہو گئے۔انھوں نے کہا کہ اس پیشرفت کے بعد ایک روز جب وہ عمران خان کو اپنی گاڑی میں اُن کے گھر ڈراپ کرنے جا رہے تھے تو انھوں نے اکبر ایس بابر کو مخاطب کرتے ہوئے ازراہ تفنن کہا کہ جو اس وقت ان کی جماعت کی پوزیشن ہے اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’تحریک انصاف اس گاڑی میں ہی پوری آ جائے گی۔‘اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ ابتدا میں جب عمران خان کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں جاتے تھے

تو جانے سے پہلے وہ، حامد خان اور مذہی سکالر جاوید غامدی ان کے ٹاکنگ پوائنٹس بناتے تھے۔انھوں نے بتایا کہ اُن کی عمران خان سے آخری ملاقات سنہ 2011 میں لاہور یادگار پاکستان کے پارک میں ہونے والے جلسے میں ہوئی تھی اس کے بعد اُن کی پارٹی کے سربراہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ وہ تین سال تک اس جماعت کی اصلاح کیے جانے کا انتظار کرتے رہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس دوران عمران خان کے برادر نسبتی بھی ان کے پاس آئے تھے اور انھوں نے بھی اس ضمن میں احتساب کمیٹی بنانے کا کہا

لیکن عمران خان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔اکبر ایس بابر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے سنہ 1992 میں انھوں نے یو ایس اے آئی ڈی میں بطور پراجیکٹ ڈائریکٹر اپنے پروفیشنل کریئر کا اغاز کیا تھا اور اس عرصے کے دوران پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان میں یو ایس اے آئی ڈی کے تحت چلنے والے منصوبے جب بند ہوئے جس کی وجہ سے 900 ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا تو اُن ملازمین نے اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے انھیں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔اکبر ایس بابر کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ان ملازمین کے حقوق کی لڑائی لڑی جس کے بعد اس وقت پاکستان میں امریکی سفیر اوکلے نے ان سے ملاقات کی

اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ نوکری سے نکالے گئے پاکستانیوں کو اچھا پیکیج دیا جائے گا۔انھوں نے بتایا کہ نوکری سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ کے بلوچستان میں شروع کیے گئے منصوبوں میں کام کیا اور پھر اس کے بعد انھوں نے سوشل سیکٹر میں کنسلٹینسی شروع کر دی۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

شادی کے صرف دو ماہ بعد بیوہ ہو جانے والی بہادر لڑکی نے شوہر کا مشن سنبھال لیا

چند دنوں کے اندر اس تسبیح کا کمال دیکھنا یا غنیُ ، یا فتاُحُ، یا وھابُ حاجت روائی،خوشحالی ملے